رخت سفر یوں ہی تو نہ بے کار لے چلو
رخت سفر یوں ہی تو نہ بے کار لے چلو
رستہ ہے دھوپ کا کوئی دیوار لے چلو
طاقت نہیں زباں میں تو لکھ ہی لو دل کی بات
کوئی تو ساتھ صورت اظہار لے چلو
دیکھوں تو وہ بدل کے بھلا کیسا ہو گیا
مجھ کو بھی اس کے سامنے اس بار لے چلو
کب تک ندی کی تہہ میں اتاروگے کشتیاں
اب کے تو ہاتھ میں کوئی پتوار لے چلو
پڑتی ہیں دل پہ غم کی اگر سلوٹیں تو کیا
چہرے پہ تو خوشی کے کچھ آثار لے چلو
جتنے بھنور کہو گے پہن لوں گا جسم پر
اک بار تو ندی کے مجھے پار لے چلو
کچھ بھی نہیں اگر تو ہتھیلی پہ جاں سہی
تحفہ کوئی تو اس کے لئے یار لے چلو