جہاں نورد
چاک تخلیق پر ایک جیسی ہی آدم کی شکلیں بنیں
روح کی آبیاری بھی یکساں ہوئی
بے کراں زندگی کی دعائیں لیے کتنے شمس و قمر روز اگنے لگے
سبز چارہ گری کے صحیفے دماغوں کی بنجر تہوں میں فروزاں ہوئے
موسموں کے جزیرے زمیں کے بدن سے نکالے گئے
روشنی کے ذخیرے چھپائے گئے آسماں میں کہیں
پھر تعفن زدہ چند ذہنوں میں تخریب کی گڑگڑاہٹ ہوئی
بے ضمیروں نے رب مساوات کے آئنے ریزہ ریزہ کیے
شرق اور غرب میں بھینس اس کی ہوئی
جو معیشت کی لاٹھی چلانے میں عیار ہے
پھر بھی کچھ سرپھرے
قیر گوں جنگلوں برف زاروں کی جانب
مشقت بھری رسم دنیا نبھانے چلے آئے ہیں
ان کی باتیں مساوات کا روپ ہیں
ان کے سینے سماوات کے آئنے
ان کے ہونٹوں پہ رنگ محبت عیاں
ان کے ہاتھوں میں پرچم رہے امن کا