رگ جاں میں اتر کر بولتا ہے
رگ جاں میں اتر کر بولتا ہے
حقیقت جب سخنور بولتا ہے
کسی سے کب وہ ڈر کر بولتا ہے
زبان حق قلندر بولتا ہے
عطا ہوتی ہے جس کو چشم بینا
تو قطرے میں سمندر بولتا ہے
نہیں ہیرا چمکتا بے تراشے
ترش جائے تو پتھر بولتا ہے
وہ جھوٹا ہے جو بے تحقیق باتیں
کسی سے سن کے اکثر بولتا ہے
وہی ہے معتبر آنسو جو اخترؔ
سر مژگاں ٹھہر کر بولتا ہے