رات صبح بہار ہوگی

مہیب سایوں میں پل رہا ہوں
کہ لاکھ رنج و الم میں محصور ایک جنس گراں ہے اقرار جس کا
آفات کا سبب ہے
میں کیسے بھولوں میں بھول جاؤں کشمکش
میں دھول آنکھوں میں جھونک ڈالوں
تو رات صبح بہار ہوگی
مرا تسلسل میرے مقدر کے ساتھ پیہم رواں دواں ہے
زمین سائے کو جھیل لے گی میں چل پڑوں گا
جو بھید جیبوں پر بوجھ بنتے ہیں
جو بھول گلیاں مٹا کے روپوش ہو گئی ہے
وہ چھپ گئی
وہ چھپ گئی ہے تو پیر مٹی سفر کا انجام قرض کر لو
جو ایسا کر لو تو صبح چاٹو زمین چاٹو
مجھے نہ دیکھو کہ میں تو نسل قدیم سالہ سے منتشر ہوں
میں لفظ ڈھونڈوں کہ خود تاریک آئینے میں اتار لوں دیکھوں توڑ ڈالوں
یوں ہی تسلسل کے ساتھ قسمت کا واسطہ ہے جو آئینہ ہے
میں اس کو توڑوں میں اس کو جوڑوں کہ جس کا اقرار تو گراں ہے