رات لمبی تھی ستارہ مرا تعجیل میں تھا
رات لمبی تھی ستارہ مرا تعجیل میں تھا
جس کو جلنا نہیں آیا وہی قندیل میں تھا
اک جہاں اور پس کار جہاں تھا باقی
اک بدن اور مرے عشق کی تکمیل میں تھا
پھر سیاہی نے سمیٹا مرا سامان آ کر
کل اثاثہ مرا اک شام کی زنبیل میں تھا
ایک لرزہ تھا ستاروں کے بدن پر طاری
میں تو ڈوبا ہوا اک حسن کی تفصیل میں تھا
اب تو ہر چہرہ اسے زرد دکھائی دے گا
دیر تک آئینہ بیمار کی تحویل میں تھا
جو ملا وہ بڑی عجلت میں ملا تھا مجھ سے
اور میں گویا ہمیشہ سے ہی تعطیل میں تھا