رات ہے شہر بتاں ہے اور ہم
رات ہے شہر بتاں ہے اور ہم
آرزوئے بے کراں ہے اور ہم
کون گزرا ہے سر راہ خیال
دور تک اک کہکشاں ہے اور ہم
رات کی ڈھلتی جوانی کے رفیق
صرف اک پیر مغاں ہے اور ہم
بجھ چلے ہیں سارے یاروں کے چراغ
اب چراغوں کا دھواں ہے اور ہم
ہر زمانے میں ملی حق کو صلیب
یہ قمیص خوں چکاں ہے اور ہم
بے ستوں تقدیر ہر فرہاد ہے
اک مذاق خسرواں ہے اور ہم
جس میں جرأت ہو وہ مڑ کر دیکھ لے
ایک عمر رائیگاں ہے اور ہم