رام

کوئی مست بادہ و جام ہے کوئی محو رقص و خرام ہے
کوئی صرف شعر و کلام ہے کوئی محو تیغ و نیام ہے
مجھے دو نہ رنگ کی دعوتیں مرے دل کی آنکھ میں رام ہے
مجھے کوئی روگ ستائے کیوں مجھے کوئی رنج رلائے کیوں
مرے دل کو آگ جلائے کیوں مری خاک چرخ اڑائے کیوں
مجھے خوف گرد الم نہیں مرے دل کی آنکھ میں رام ہے
نہ ہے آنکھ کو کوئی جستجو نہ ہے قلب کو کوئی آرزو
نہ ہے ذوق سیر بہار جو نہ ہے شوق شہرت کو بہ کو
مرا دل دلیل بہشت ہے مرے دل کی آنکھ میں رام ہے
ہے چمن کو خواہش رنگ و بو ہے گہر کو خواہش آبرو
ہے گھٹا کو برق کی جستجو ہے ہوا کو سانس کی آرزو
مجھے آرزو ہے نہ جستجو مرے دل کی آنکھ میں رام ہے
نہ شرار فسق و فجور ہے نہ ہوائے کبر و غرور ہے
نہ فریب ہے نہ فتور ہے مرے گھر میں نور ہی نور ہے
مرے دل سے پوچھ نہ ہم نشیں مرے دل کی آنکھ میں رام ہے
کہا پھول نے مجھے پھول کر مرے آب و رنگ پہ کر نظر
مری آب آب حیات اثر مرا رنگ رنگ وفا ثمر
مری ضو بہار‌ نگاہ ہے مری بو بہار مشام ہے
کہا میں نے ہنس کہ اے بے خبر نہ بہار حال پہ ناز کر
تری آب آب سراب اثر ترا رنگ رنگ فنا ثمر
مری زندگی کو دوام ہے مرے دل کی آنکھ میں رام ہے