ہولی
ہر ایک پھول ہوا رنگ بار ہولی میں
ہر ایک شاخ ہے صورت نگار ہولی میں
گلوں سے موج شفق رنگ کھیلنے آئی
عجب ہے ارض و سما پر بہار ہولی میں
وہ سرخ پوش گلستاں میں رنگ کھیلا ہے
گل و سمن پہ ہے طرفہ نکھار ہولی میں
ہر ایک چیز سے رنگ وفا ٹپکتا ہے
شہید عشق کی ہے یادگار ہولی میں
کچھ اس طرح سے ہوئی گل پہ شبنم افشانی
قبائے گل ہے جواہر نگار ہولی میں
جدھر نگاہ اٹھی سرخیاں نظر آئیں
ہر ایک شے ہے فسانہ نگار ہولی میں
ہے کائنات میں جوش نمو کی جنبش سے
ہر ایک ذرہ کا دل بے قرار ہولی میں
قدم کے نیچے ہے فرش زمردیں رعناؔ
ہے سر پہ سایۂ ابر بہار ہولی میں