قومی زبان

فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے

فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے اے گل تازہ بہت دیر لگا دی تو نے تیری خوشبو سے مرے دل میں کھلے درد کے پھول سو گئی تھی جو بلا پھر سے جگا دی تو نے میری آنکھوں میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ تھا اس خرابے میں یہ کیا شمع جلا دی تو نے زندگی بھر مجھے جلنے کے لیے چھوڑ دیا سبز پتوں میں یہ ...

مزید پڑھیے

شہر کا شہر اگر آئے بھی سمجھانے کو

شہر کا شہر اگر آئے بھی سمجھانے کو اس سے کیا فرق پڑے گا ترے دیوانے کو کیا کوئی کھیل ہے بے نام و نشاں ہو جانا ویسے تو شمع بھی تیار ہے جل جانے کو وہ عجب شخص تھا کل جس سے ملاقات ہوئی میں ملا ہوں کسی جانے ہوئے ان جانے کو ایک لمحہ بھی تو بے کار نہیں کٹ سکتا ایک گتھی جو ملی ہے مجھے ...

مزید پڑھیے

دل بہت مصروف تھا کل آج بے کاروں میں ہے

دل بہت مصروف تھا کل آج بے کاروں میں ہے سات پردوں میں جو رہتا تھا وہ بازاروں میں ہے خاک کے پتلے فلک کی سرحدوں کو چھو چکے اور جسے انسان کہتے ہیں ابھی غاروں میں ہے لاج رکھ لیتے ہیں میری منہ پہ کچھ کہتے نہیں دشمنی کا کچھ سلیقہ تو مرے پیاروں میں ہے سب کو دیکھا اور کسی کو دیکھ کر ٹوٹا ...

مزید پڑھیے

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے اک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ہے میری رسوائی میں وہ بھی ہیں برابر کے شریک میرے قصے مرے یاروں کو سناتا کیا ہے پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے ذہن کے پردوں پہ منزل کے ہیولے نہ بنا غور سے دیکھتا جا راہ ...

مزید پڑھیے

مجھ کو ملنا ہے وحید اخترؔ سے

زندگی یہ ترا احسان بہت ہے مجھ پر اعظمیؔ زیست ہے ہر موڑ پہ جو ساتھ مرے اس کی یادوں میں بسر ہوتے ہیں دن رات مرے ایک احسان نیا کر مجھ پر زندگی، موت سے تو میری سفارش کر دے مجھ کو ملنا ہے وحید اخترؔ سے

مزید پڑھیے

دریائے خوں

پانی کی لے پہ گاتا اک کشتیٔ ہوا میں آیا تھا رات کوئی سارے بدن پہ اس کے لپٹے ہوئے تھے شعلے ہونٹوں سے اوس بوندیں پیہم گرا رہا تھا سرگوشیوں کے بادل چھائے ہوئے تھے ہر سو دریائے خوں رگوں میں بے تاب ہو رہا تھا میں ہو رہا تھا پاگل!

مزید پڑھیے

فن کے شجر پر پھل جو لگے ہیں

فن کے شجر پر پھل جو لگے ہیں ان میں زیادہ تر کچے ہیں کیسا یہ کل جگ آیا ہے لوگ پڑوسی سے ڈرتے ہیں جھوٹ ہے سب آئے تھے فسادی یہ تو کرشمے وردی کے ہیں کتنے دانشور ہو بھیا جاننے والے جان رہے ہیں چیخ کے لہجہ بول رہا ہے شعر شہودؔ آفاقی کے ہیں

مزید پڑھیے

آداب زندگی سے بہت دور ہو گیا

آداب زندگی سے بہت دور ہو گیا شہرت ذرا ملی تو وہ مغرور ہو گیا اب رقص خاک و خوں پہ کوئی بولتا نہیں جیسے یہ میرے ملک کا دستور ہو گیا دشمن سے سرحدوں کو بچانا تھا جس کا کام اپنوں کو قتل کرنے پہ مامور ہو گیا گمنام تھا لباس شرافت کی وجہ سے دستار مکر باندھی تو مشہور ہو گیا سورج بھی ...

مزید پڑھیے

برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر

برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر چھپر ادھر نہیں ہے ہمارے مکان پر مسجد میں اس کو دیکھ کے حیران رہ گیا تنقید کر رہا تھا جو کل تک اذان پر کاغذ کے بال و پر پہ بھروسہ نہ کیجیئے جانا اگر ہے آپ کو اونچی اڑان پر اب تک رمق حیات کی پیدا نہ ہو سکی کیا میں لہو چھڑکتا رہا ہوں چٹان پر دو چار ...

مزید پڑھیے

ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں

ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں ٹکرائے ہیں طوفاں سے تلاطم سے لڑے ہیں دل اپنا جلاؤ شب ظلمت کے حریفو کیا غم ہے چراغوں کے اگر قحط پڑے ہیں چڑھنے دو ابھی اور ذرا وقت کا سورج ہو جائیں گے چھوٹے یہی سائے جو بڑے ہیں منزل سے پلٹ آئے ہیں ہم اہل محبت جو سنگ ہدایت تھے وہ رستے میں کھڑے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 926 سے 6203