قومی زبان

دھواں دھواں ہے فضا روشنی بہت کم ہے

دھواں دھواں ہے فضا روشنی بہت کم ہے سبھی سے پیار کرو زندگی بہت کم ہے مقام جس کا فرشتوں سے بھی زیادہ تھا ہماری ذات میں وہ آدمی بہت کم ہے ہمارے گاؤں میں پتھر بھی رویا کرتے تھے یہاں تو پھول میں بھی تازگی بہت کم ہے جہاں ہے پیاس وہاں سب گلاس خالی ہیں جہاں ندی ہے وہاں تشنگی بہت کم ...

مزید پڑھیے

طویل ہجر ہے اک مختصر وصال کے بعد

طویل ہجر ہے اک مختصر وصال کے بعد میں اور ہو گیا تنہا ترے خیال کے بعد تپش اک اور ہے دن کی حرارتوں کے سوا سفر اک اور ہے سورج ترے زوال کے بعد کسی سے رکھتے کہاں دشمنی کا رشتہ ہم لہو کو سرد بھی ہونا تھا اک ابال کے بعد جو توڑنا ہے تو دل اس ادا سے توڑ مرا کوئی ملال نہ ہو مجھ کو اس ملال کے ...

مزید پڑھیے

کہیں سے چاند کہیں سے قطب نما نکلا

کہیں سے چاند کہیں سے قطب نما نکلا قدم جو گھر سے نکالا تو راستہ نکلا جلایا دھوپ میں خود کو تو ایک سایہ سا ہمارے جسم کی دیوار سے لگا نکلا تمام عمر بھٹکتا رہا میں تیرے لئے ترا وجود ہی ہستی کا مدعا نکلا تمہاری آنکھوں میں صدیوں کی پیاس ڈوب گئی ہماری روح سے احساس کربلا نکلا گریز ...

مزید پڑھیے

نظر سے جب اکستا ہے مرا دل

نظر سے جب اکستا ہے مرا دل تو جا کاکل میں بستا ہے مرا دل میں اس کی چشم سے ایسا گرا ہوں مرے رونے پہ ہنستا ہے مرا دل گیا ہے جب سے وہ میری بغل سے اسی کی بو میں بستا ہے مرا دل خریدار اس کے بہتیرے ہیں تم سے نہ جانو یہ کہ سستا ہے مرا دل یہاں تک غرق ہوں رونے میں حاتمؔ کہ ہنسنے کو ترستا ہے ...

مزید پڑھیے

ترا دل یار اگر مائل کرے ہے

ترا دل یار اگر مائل کرے ہے تو جان اب تجھ کو صاحب دل کرے ہے تجلی کو نہیں تکرار ہرگز یہاں تکرار اب جاہل کرے ہے رعایت بوجھ تو معشوق کا جور کہ تجھ کو عشق میں کامل کرے ہے تو کھو مت دین کو دنیا کے پیچھے کوئی یہ کام بھی عاقل کرے ہے بڑی دشمن تری غفلت ہے ہر دم کہ تجھ کو موت سے غافل کرے ...

مزید پڑھیے

زندہ رہنا ہے تو سانسوں کا زیاں اور سہی

زندہ رہنا ہے تو سانسوں کا زیاں اور سہی روشنی کے لیے تھوڑا سا دھواں اور سہی صبح کی شرط پہ منظور ہیں راتیں ہم کو پھول کھلتے ہوں تو کچھ روز خزاں اور سہی خواب تعبیر کا حصہ ہے تو سو کر دیکھیں سچ کے ادراک میں اک شہر گماں اور سہی وہ برش اور میں روتا ہوں قلم سے اپنے درد تو ایک ہیں دونوں ...

مزید پڑھیے

پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے

پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے زمیں پہ بیٹھ کے کیا آسمان دیکھتا ہے ملا ہے حسن تو اس حسن کی حفاظت کر سنبھل کے چل تجھے سارا جہان دیکھتا ہے کنیز ہو کوئی یا کوئی شاہزادی ہو جو عشق کرتا ہے کب خاندان دیکھتا ہے گھٹائیں اٹھتی ہیں برسات ہونے لگتی ہے جب آنکھ بھر کے فلک کو کسان دیکھتا ...

مزید پڑھیے

ذرا سے غم کے لئے جان سے گزر جانا

ذرا سے غم کے لئے جان سے گزر جانا محبتوں میں ضروری نہیں ہے مر جانا کبھی لحاظ نہ رکھنا کسی روایت کا جو جی میں آیا اسے ہم نے معتبر جانا وہ ریت ریت فضا میں تری صدا کا سراب وہ بے ارادہ مرا راہ میں ٹھہر جانا تمام رات بھٹکنا ترے تعاقب میں ترے خیال کی سب سیڑھیاں اتر جانا وہ من میں چور ...

مزید پڑھیے

اپنی ہستی کو مٹا دوں ترے جیسا ہو جاؤں

اپنی ہستی کو مٹا دوں ترے جیسا ہو جاؤں اس طرح چاہوں تجھے میں ترا حصہ ہو جاؤں پائلیں باندھ کے بارش کی کروں رقص جنوں تو گھٹا بن کے برس اور میں صحرا ہو جاؤں دور تک ٹھہرا ہوا جھیل کا پانی ہوں میں تیری پرچھائیں جو پڑ جائے تو دریا ہو جاؤں شہر در شہر مرے عشق کی نوبت باجے میں جہاں جاؤں ...

مزید پڑھیے

تمہارے عشق میں ہم ننگ و نام بھول گئے

تمہارے عشق میں ہم ننگ و نام بھول گئے جہاں میں کام تھے جتنے تمام بھول گئے نمازیوں نے تجھ ابرو کو دیکھ مسجد میں بہ سمت قبلہ سجود و قیام بھول گئے یہ وضع کیا ہے کہ ہوتے نہیں ہو دست بسر ابھی سے اپنوں کا لینا سلام بھول گئے گئے تھے زعم میں اپنے پر اس کو دیکھتے ہی جو دل نے ہم سے کہے تھے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 912 سے 6203