قومی زبان

موت ہے زندگی زندگی موت ہے

موت ہے زندگی زندگی موت ہے ہر نفس موت ہے ہر گھڑی موت ہے میں اندھیروں میں کھو جاؤں ممکن نہیں ایک پروانے کی روشنی موت ہے اس لئے شاد رہتا ہوں ہر حال میں میرے دشمن کو میری خوشی موت ہے کوئی تلوار خنجر نہ تیر و تبر حرملہ کے لئے اک ہنسی موت ہے خامشی عاقلوں کی ہے خوبی مگر بعض اوقات پر ...

مزید پڑھیے

عشق تجدید کر کے دیکھتے ہیں

عشق تجدید کر کے دیکھتے ہیں پھر سے امید کر کے دیکھتے ہیں قتل کرتے ہیں اپنی ہستی کا اور پھر عید کر کے دیکھتے ہیں اس کی تنقید کرنے سے پہلے اپنی تنقید کر کے دیکھتے ہیں روز ہنستے ہیں مسکراتے ہیں آج نم دید کر کے دیکھتے ہیں کچھ نہ حاصل ہوا غزل کہہ کر آؤ تمجید کر کے دیکھتے ہیں وصف ...

مزید پڑھیے

دل کی دھڑکن تھم گئی درد نہاں بڑھتا گیا

دل کی دھڑکن تھم گئی درد نہاں بڑھتا گیا جل گئی ہستی مری لیکن دھواں بڑھتا گیا زندگی تو ہی بتا کس جا مجھے لے کر چلی اجنبی رستوں پہ آخر میں کہاں بڑھتا گیا دشت وحشت میں جلا کر ظلمتوں کی بستیاں روشنی کی سمت میرا کارواں بڑھتا گیا اپنی بربادی کا ذمے دار میں یا کوئی اور ذہن میں ہر وقت ...

مزید پڑھیے

شارٹ کٹ

ہجوم ہے کہ آگ کے پہاڑ سے گرا ہوا الاؤ ہے کوئی نہیں جو کہہ سکے کہ ایک پل کو ٹھہر کر بتاؤ تو کہاں چلے ہو، کس طرف ہجوم کیا ہے بے شمار منتشر اکیلے پن کی بھیڑ ہے جو آپ اپنی آہٹوں کے ڈر سے لڑکھڑا گئی غبار نقش پا اٹھا تو جم گیا غلاف چشم و گوش پر یہ قافلہ بھٹک رہا ہے منزلوں کو رکھ کے اپنے دوش ...

مزید پڑھیے

کچھ اس انداز سے ہیں دشت میں آہو نکل آئے

کچھ اس انداز سے ہیں دشت میں آہو نکل آئے کہ ان کو دیکھ کر پھولوں کے بھی آنسو نکل آئے فلک کو کون سی وادی برہنہ سر نظر آئی گرجتے بادلوں کے لشکری ہر سو نکل آئے ابھی تو ایک ہی دل کا دریچہ وا کیا میں نے یہاں بہر زیارت کس قدر جگنو نکل آئے جو سجدے کی نہیں تو رقص کرنے کی اجازت ہو کسی سینے ...

مزید پڑھیے

کس حسیں خواب کا فسانہ ہے

کس حسیں خواب کا فسانہ ہے زندگی درد کا ترانہ ہے سب کہ نظروں میں وو دوانہ ہے جس کا انداز شاعرانہ ہے موت ہی زندگی کی منزل ہے زندگی موت کا بہانہ ہے مفلسوں کا بھی اور شاہوں کا قبر ہی آخری ٹھکانہ ہے زندگی ہے کوئی حسیں محبوب جس کا انداز قاتلانہ ہے مر چکی ہے یہ وصل کی حسرت تیری یادوں ...

مزید پڑھیے

ترے نزدیک آتا جا رہا ہوں

ترے نزدیک آتا جا رہا ہوں وجود اپنا مٹاتا جا رہا ہوں مقدر آزماتا جا رہا ہوں میں تجھ سے دل لگاتا جا رہا ہوں زبانی تیر کھاتا جا رہا ہوں میں پھر بھی مسکراتا جا رہا ہوں تجھے پانے کی اک خواہش میں جاناں میں کتنے زخم کھاتا جا رہا ہوں اندھیروں سے بہت ڈرتا ہوں لیکن چراغوں کو بجھاتا جا ...

مزید پڑھیے

ظلم مجھ پر شدید کر بیٹھے

ظلم مجھ پر شدید کر بیٹھے پھر وو کار یزید کر بیٹھے ہے وفائی بھی وو نبھا نہ سکے ہم وفا کی امید کر بیٹھے جن پہ مرتا تھا تو وہ صد افسوس مرے مرنے پہ عید کر بیٹھے کس قدر خوش نصیب ہوگا وو جو تری خوابوں میں دید کر بیٹھے ہم تھے خوشیوں کو بیچنے نکلے درد و غم کی خرید کر بیٹھے کاش نفرت کے ...

مزید پڑھیے

ہمیں نابود مت کرنا

اگرچہ سوت سے تکلے نے دھاگے کو نہ کھینچا تھا مرے ریشے بنت کے مرحلے میں تھے رگیں ماں کی دریدوں سے نہ بچھڑی تھیں میں اپنے جسم سے کچھ فاصلے پر تھا مگر میرے عقیدے کا تعین کرنے والوں نے مرے مسلک کے بارے میں جو سوچا تھا اسے تجسیم کر ڈالا میں جس دم اپنے ہونے پر اتر آیا مجھے تقسیم کر ...

مزید پڑھیے

اعراف

سوالیہ نشان کی قطار میں کھڑے ہوئے مفکرو! جواب دو وہ کون، کیسا، کس لیے، کہاں پہ، کب سے، کب تلک؟ سوال شش جہات کا جواب کوئی اب تلک؟ ''مگر یہاں کشاد چشم و لب کسی کے بس میں ہے سوال تک رسائی جب محال ہے تو ہمت جواب کس کے بس میں ہے وہ کس کی دسترس میں ہے جو معرفت کے لب کھلے تو پتھروں کی بارشوں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 64 سے 6203