سانس کا اپنی رگ جاں سے گزر ہونے تک
سانس کا اپنی رگ جاں سے گزر ہونے تک درد ہوتا ہے مجھے شب کے سحر ہونے تک عمر گزری پہ اثر آہ کا پھر بھی نہ ہوا جی گئے ہم بھی کسی زلف کے سر ہونے تک جب وہ سمجھیں گے تو یہ درد میں ڈھل جائے گی آہ باقی ہے مری صرف اثر ہونے تک تھا تغافل انہیں نو میدئ جاوید بھی تھی خاک در خاک تھے ہم ان کو خبر ...