قضا کا وقت رخصت کی گھڑی ہے

قضا کا وقت رخصت کی گھڑی ہے
ذرا ٹھہرو کہ یہ منزل کڑی ہے


جسے تم چھوڑ کر رخصت ہوئے تھے
وہ بستی آج تک سونی پڑی ہے


ابھی تک دل کے ویرانے میں جیسے
تمنا ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے


مرے دشمن بھی اب تو آ رہے ہیں
تمہیں کس وقت جانے کی پڑی ہے


تمہارے درد مندوں کی خبر لے
غم دوراں کو ایسی کیا پڑی ہے


کسی کی یاد سیفؔ اور دل کی حالت
گھنا جنگل اکیلی جھونپڑی ہے