قطار جگنوؤں کی روشنی لٹاتی رہی

قطار جگنوؤں کی روشنی لٹاتی رہی
میں رنگ گوندھ کے تتلی کے پر بناتی رہی


رکھا تھا سوئی کی ٹک ٹک پہ اک دھڑکتا دل
یہی تماشہ گھڑی ہاتھ کی دکھاتی رہی


میں چاندنی کی سہیلی وہ چاند بھائی مرا
تمام دن یہی آواز کان کھاتی رہی


گھسا پٹا کہیں کچھ انتظار روتا رہا
ہوا کو دیکھو کھڑی سیٹیاں بجاتی رہی


وہ تھاپ ڈھول کی کچھ اور تیز ہوتی گئی
خموشی بیٹھی مرے پاس گنگناتی رہی


وہ ایک لڑکا سا لپٹا ہوا چراغ کے ساتھ
دیا سلائی مری انگلیاں جلاتی رہی


فلک کی کھونٹی سے ٹانگا ہوا تھا ایک خیال
زمیں پہ بیٹھی تری بات مسکراتی رہی


میں برف باری میں نکلی تھی آگ سلگانے
وہ ننھی تتلی مرے پاؤں جب دباتی رہی


قریب لانے کی ترغیب دینے والے دیکھ
تری خوشی میں مری زندگی بھی جاتی رہی