قحط
میں اپنے بند کمرے میں پڑا ہوں
کہ روشنی بھی اجالوں کی منتظر ہے
وہ کونے میں لگا جالا بھی تھک گیا ہے
نیلی دیواریں جو امید کا اک زاویہ بناتی تھیں
خود کو پردے سے چھپاتی ہیں
کہ کھڑکی سے نظر آتا
بارش کا خوب صورت منظر
محظوظ کن تھا
کلینڈر کے پلٹنے پر
اب رم نظم بھی سنائی نہیں دیتی
مگر کھڑکی پر رستہ بناتا ہوا پانی
وہ بھی بے تاب ہے کہ جھانک لے اندر
کہ پہروں کون ہے جو چپ کی شمع جلائے
کھڑکی پر پڑے پانی کے قطروں کو
مقدس سے مقدس جانتا ہے
کہ ایک ایک قطرہ آنسو سے شبیہ ہے
کہ برسے تو بہت برسے وگرنہ قحط واجب ہے