شاعری

ایک نظم

دانشور کہلانے والو تم کیا سمجھو مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں تھل کے ریگستان میں رہنے والے لوگو تم کیا جانو ساون کیا ہے اپنے بدن کو رات میں اندھی تاریکی سے دن میں خود اپنے ہاتھوں سے ڈھانپنے والو عریاں لوگو تم کیا جانو چولی کیا ہے دامن کیا ہے شہر بدر ہو جانے والو فٹ پاتھوں پر سونے ...

مزید پڑھیے

طلسم ہوش ربا ہے کمال رکھتا ہے

طلسم ہوش ربا ہے کمال رکھتا ہے بدن سے عشق نہ کرنا زوال رکھتا ہے کہیں کا رہنے نہ دے گا ہمیں یہ ذہن رسا جواب جن کے نہیں وہ سوال رکھتا ہے خرد سے تھک کے ہم آتے ہیں دل کے دامن میں یہ غم گسار ہمارا خیال رکھتا ہے گرا ہے اپنی ہی نظروں میں جانے کتنی بار وہی جو آج عروج و کمال رکھتا ہے ثبوت ...

مزید پڑھیے

عہد الفت میں یہ خدشہ کب تھا

عہد الفت میں یہ خدشہ کب تھا تم سے بچھڑیں گے یہ سوچا کب تھا رات آئینہ جو دیکھا تو لگا اتنا ویراں میرا چہرہ کب تھا مجھ پہ الزام لگانے والے تو مجھے ٹھیک سے سمجھا کب تھا یاد آئیں گی وہ رم جھم آنکھیں گھر سے چلتے ہوئے سوچا کب تھا اس کو نزدیک سے دیکھا عارفؔ آج جیسا ہے کل ایسا کب تھا

مزید پڑھیے

آج بھی یاد یار باقی ہے

آج بھی یاد یار باقی ہے عشق کا اعتبار باقی ہے زندگی کی رمق ہے ہم میں ابھی آپ کا انتظار باقی ہے یادگار جنوں ہمارے پاس دامن تار تار باقی ہے پھر رہے ہیں صلیب اٹھائے ہم ہاں ابھی وصل دار باقی ہے یہ امیدیں نہ چھین لیں حالات بس یہی اختیار باقی ہے لفظ و معنی کی وسعتوں کے ساتھ شعر کا ...

مزید پڑھیے

کچھ نئی ہم پہ گزر جائے تو پھر شعر کہیں

کچھ نئی ہم پہ گزر جائے تو پھر شعر کہیں بھولی بصری کوئی یاد آئے تو پھر شعر کہیں زندگی ہم کو لگے پھر سے جو انجانی سی اور گیا وقت پلٹ آئے تو پھر شعر کہیں کوئی اڑتا ہوا آنچل کوئی بکھری ہوئی زلف شعر کہنے کو جو اکسائے تو پھر شعر کہیں فکر فردا غم ایام کا چھایا ہے غبار ذہن سے دھند یہ چھٹ ...

مزید پڑھیے

ہائے کس درجہ بے مکان ہوں میں

ہائے کس درجہ بے مکان ہوں میں دو زمانوں کے درمیان ہوں میں جو لکھی جا رہی ہے کل کے لئے وہ ادھوری سی داستان ہوں میں جس کی قیمت نہیں ہے اب کوئی اس روایت کا پاسبان ہوں میں آئینہ دیکھ کر یہ سوچتا ہوں کچھ حقیقت ہوں کہ گمان ہوں میں زندگی اب تو مجھ کو جانے دے کب سے مصروف امتحان ہوں ...

مزید پڑھیے

روش عصر سے انکار بہت مشکل ہے

روش عصر سے انکار بہت مشکل ہے کرب احساس کا اظہار بہت مشکل ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ میں بولوں ہوں آواز ان کی اف یہ مجبوریٔ گفتار بہت مشکل ہے ہم سے دیوانے کہاں تاب و تپش سے ٹھہرے ڈھونڈھ لیں سایۂ دیوار بہت مشکل ہے مرا دشمن مرے اندر ہی چھپا ہے اور میں خود سے ہوں بر سر پیکار بہت مشکل ...

مزید پڑھیے

کاش

میں شہر تمنا کی تاراج نگری کے ملبے میں لاچار و تنہا کبھی اس کھنڈر پر کبھی اس کھنڈر تک بھٹکتا ہوا ڈھونڈتا پھر رہا ہوں اپنے معصوم مسمار خوابوں کا ملبہ تبھی اک طرف کو نظر جو گئی تو دکھائی دیا ٹوٹے پھوٹے جلائے گئے کچھ مکاں ایک مینار مسجد کلش ایک مندر کا اوندھا پڑا ہے کریدا تو ملبے کے ...

مزید پڑھیے

بے یقینی کا صحرا

اے خدا تیرا لاچار بندہ تشنہ لب بے سہارا بے یقینی کے صحرا میں تنہا کھڑا ہے کتابوں سے لہجوں سے لفظوں سے میرا یقیں اٹھ چکا ہے ہر طرف شور ہے کھوکھلے الفاظ و اظہار کا صرف پرچار کا سب عقیدے نظریے محض اشتہارات ہیں ڈھول پیٹے چلے جا رہے ہیں اس قدر شور ہے کہ سماعت بھی پتھرا گئی ہے اس قدر ...

مزید پڑھیے

بشر زندہ ہے

میری بستی میں بہت دیر سے سناٹا ہے نہ کہیں نالہ و شیون نہ کوئی شور بکا پر کہیں دور بہت دور کسی کوچے سے ہولے ہولے سسکنے کی صدا آئی ہے سن کے یہ گریۂ افتادہ تسلی سی ہوئی میری بستی میں ابھی کوئی بشر زندہ ہے ختم ہو جائے گی یہ رات سحر زندہ ہے کیا عجب کہ یہی موہوم سی آواز یہی سسکاری ایک دن ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5824 سے 5858