پکنک

سماں سہانا تھا ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے
بدن کو تازگی ملتی تھی روح میں جیسے
اضافہ ہوتا سا محسوس ہو رہا تھا مجھے
فضا میں اڑتے ہوئے مست ابر کے ٹکڑے
یہ لگ رہا تھا بہاروں کے ہیں فرستادے
خیال آیا کہ موسم کا لطف لیں سب دوست
مرے تو جاتے ہیں جینے کو آج کھل کے جئیں
عظیم شہر کی آلودہ اس فضا سے پرے
کہیں بھی مل کے چلیں ساتھ بیٹھیں کھائیں پئیں
مرا پڑوسی بڑا پیارا آدمی تھا اسے
گلی میں آن کے آواز دی غلام رسول
معاً مجھے یہ خیال آیا میرا ہمسایہ
اب اس جہاں میں نہیں بن چکا ہے وقت کی دھول
جو پچھلے سال اچانک بھڑک اٹھے تھے یہاں
وہ فرقہ واری فسادات کھا گئے اس کو