پھول کھلا بے حجاب

درد کی سوغات تھی
راہ کے ملبوس تھے کانٹوں کے ہار
موڑ بہت آئے ہیں
نام رکھا دشت و در
اور اسی دشت میں
تو بھی تھی خانہ خراب میں بھی خانہ خراب
ٹل ہی گئی ساعت قحط دمشق
ہوش سوا ہے مگر
ہوش نہیں آئے گا
جیسے بہم شبنم و گل ہوں یوں ہی خواب عشق
شبنم تعبیر سے موج جنوں خیز ہے
چشم فسوں ساز نے ایک افسانہ کہا
دل نے اسے سن لیا
لمحۂ جاوید کی
ایک ہی تفسیر ہے
قصر زلیخا میں آج
یوسف کنعاں کی پذیرائی ہے
وصل کی بے تاب کھڑی آئی ہے
حیلۂ پرویز ہے
دوہا چراغ سحر
ٹل ہی گئی ساعت قحط دمشق
پھول کھلا بے حجاب
جاگ اٹھے دشت و در


رنج میں راحت میں بھی
ایک ہی موسم کو ملا ہے ثبات
شوق کی تنویر سے کیسے فروزاں ہیں بام
میں نے لکھی کائنات
دل کے اسیروں کے نام