پھر وہی شب وہی ستارہ ہے

پھر وہی شب وہی ستارہ ہے
پھر وہی آسماں ہمارا ہے


وہ جو تعمیر تھی تمہاری تھی
یہ جو ملبہ ہے سب ہمارا ہے


وہ جزیرہ ہی کچھ کشادہ تھا
ہم نے سمجھا یہی کنارہ ہے


چاہتا ہے کہ کہکشاں میں رہے
میرے اندر جو اک ستارہ ہے