پھر گھڑی آ گئی اذیت کی

پھر گھڑی آ گئی اذیت کی
اس کی یادوں نے پھر شرارت کی


جب کھلیں گتھیاں حقیقت کی
دھجیاں اڑ گئیں شرافت کی


سچ بتاؤ کبھی ہوا ایسا
سچ بتاؤ کبھی شکایت کی


خود سے اپنا مزاج بھی پوچھوں
گر میسر گھڑی ہو فرصت کی


کتنے چہروں کے رنگ زرد پڑے
آج سچ بول کر حماقت کی


سچ سے ہرگز گریز مت کرنا
ہے اگر آرزو شہادت کی


میں بزرگوں کے سائے میں ہوں زبیرؔ
بارشیں ہو رہی ہیں رحمت کی