سرفراز زاہد کے تمام مواد

19 غزل (Ghazal)

    ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم

    ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم دان یہ فقر کی دولت نہیں کر سکتے ہم اک عداوت سے فراغت نہیں ملتی ورنہ کون کہتا ہے محبت نہیں کر سکتے ہم کسی تعبیر کی صورت میں نکل آتے ہیں اپنے خوابوں میں سکونت نہیں کر سکتے ہم شاخ سے توڑ لیا کرتے ہیں آگے بڑھ کر جن کی خوشبو پہ قناعت نہیں کر سکتے ...

    مزید پڑھیے

    ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم

    ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم دان یہ فقر کی دولت نہیں کر سکتے ہم اک عداوت سے فراغت نہیں ملتی ورنہ کون کہتا ہے محبت نہیں کر سکتے ہم کسی تعبیر کی صورت میں نکل آتے ہیں اپنے خوابوں میں سکونت نہیں کر سکتے ہم استعاروں کے تکلف میں پڑے ہیں جب سے اپنے ہونے کی وضاحت نہیں کر سکتے ...

    مزید پڑھیے

    نظر کی دھوپ میں آنے سے پہلے

    نظر کی دھوپ میں آنے سے پہلے گلابی تھا وہ سنولانے سے پہلے سنا ہے کوئی دیوانہ یہاں پر رہا کرتا تھا ویرانے سے پہلے محبت عام سا اک واقعہ تھا ہمارے ساتھ پیش آنے سے پہلے کھلا کرتے تھے خوابوں میں کسی کے ترے تکیے پہ مرجھانے سے پہلے

    مزید پڑھیے

    جب تعارف سے بے نیاز تھا میں

    جب تعارف سے بے نیاز تھا میں کوئی زاہد نہ سرفرازؔ تھا میں جب ہوا آشکار تب جانا اپنے بارے میں کوئی راز تھا میں اب تو سانسوں میں بھی نہیں ترتیب پہلے وقتوں میں نے نواز تھا میں اے مری انتہائے بربادی کس قدر مبتلائے ناز تھا میں سب کو قدرت تھی خوش کلامی پر خامشی میں زباں دراز تھا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی ہونٹوں پہ ایسا لمس اپنی آنکھ کھولے

    کبھی ہونٹوں پہ ایسا لمس اپنی آنکھ کھولے کہ بوسا خودکشی کرنے سے پہلے مسکرا دے کوئی آنسو چمکنے میں ہمارا ساتھ دیتا تو زہرہ اور عطارد اپنے گھر کی راہ لیتے لجا کر رات نے کچھ اور بھی گھونگھٹ نکالا طلب نے جسم پہنا شوق نے گہنے اتارے تصور میں ٹہلتے خال و خد کیا چاہتے ہیں اداسی سے کہو ...

    مزید پڑھیے

تمام