پھینکی کسی نے کنکری دل یک بیک دریا ہوا

پھینکی کسی نے کنکری دل یک بیک دریا ہوا
دریا میں اک سیلاب تھا سیلاب تھا امڈا ہوا


دل میں کوئی آزار تھا وہ مجھ سے یوں گویا ہوا
آزردۂ تاثیر ہوں دل دے دیا اچھا ہوا


گاہے برنگ مہرباں گاہے خیال بد گماں
وہ بھی تو آخر پھول ہے کانٹوں میں ہے الجھا ہوا


اس طرح چشم نیم وا غافل بھی تھی بیدار بھی
جیسے نشہ ہو رات کا یا صبح کا تڑکا ہوا


لطف نظر وہ شے لگی جو جس قدر تھی اجنبی
رستہ نہ تھا جانا ہوا چہرہ نہ تھا دیکھا ہوا


اے خاطر مہر آشنا اس کے تلون پر نہ جا
یہ بے رخی تھی اک ادا وہ سرو تھا سیدھا ہوا


وہ علم ہو یا شاعری وہ فقر ہو یا سروری
ہم جس قدر جھکتے گئے قد اور بھی اونچا ہوا


جنگ و جدل کے واسطے آخر بڑے کیوں آ گئے
بازیچۂ اطفال تھا جھگڑا کوئی جھگڑا ہوا