پھیل رہے ہیں وقت کے سائے

پھیل رہے ہیں وقت کے سائے
دیکھیں رات کہاں تک جائے


دیدہ و دل کی بات نہ پوچھو
ایک لگائے ایک بجھائے


آج یہ ہے موسم کا تقاضا
زلف تری کھل کر لہرائے


ان آنکھوں سے موتی برسے
ان ہونٹوں نے پھول کھلائے


دیکھ بھال کر زہر پیا ہے
سوچ سمجھ کر دھوکے کھائے


آج وہ تنہا رات کٹی ہے
آنسو تک آنکھوں میں نہ آئے


سیفؔ زمانہ سمجھاتا ہے
کون اپنے ہیں کون پرائے