پتوں پہ لکھا نوحہ

اگر خاک پر خیمۂ گل لگے
تو اسے یاد کرنا
اگر شب کے پچھلے پہر ایک روشن ستارہ شان سفر ہو
تو خود اپنے ہونے کا احساس جاگے
زمیں آنکھ کھولے
تو پھر وہ کہانی سنے
جس کو سنتے ہوئے پچھلی شب اس کو نیند آ گئی تھی
دھوئیں اور کائی کا ہم رنگ موسم
پرانے لبادے اتارے
ہرے خواب پہنے
تو یہ درد کی خستگی ہم نشینی کی لذت سے سرشار ہو
گھنے جنگلوں سے اگر کوئی جھونکا
گزرتے ہوئے جھولیاں بھر کے پتے لٹائے
اگر کشور خواب پر کوئی شب خون مارے
اسے یاد کرنا
اسے یاد رکھنا