پتھریلی وہ زمین تھی کوئی راستہ نہ تھا

پتھریلی وہ زمین تھی کوئی راستہ نہ تھا
گزرا تھا کس مقام سے مجھ کو پتہ نہ تھا


وہ بات میرے نام سے منسوب کی گئی
جس بات سے تو میرا کوئی واسطہ نہ تھا


مشکل گھڑی میں بن کے سہارا وہ آ گیا
میری طرف جو مڑ کے کبھی دیکھتا نہ تھا


پتھر کہاں سے آیا تھا یہ سوچنا پڑا
اس شہر میں تو میرا کوئی آشنا نہ تھا


اندر کے فاصلوں نے پریشان کر دیا
ظاہر کا فاصلہ تو کوئی فاصلہ نہ تھا


رہبرؔ کھڑا تھا میں کسی انجانے موڑ پر
جاری سفر تھا آگے مگر راستہ نہ تھا