خواب شب پر کیف کی تعبیر تو دے گا

خواب شب پر کیف کی تعبیر تو دے گا
کچھ اور نہیں اپنی وہ تصویر تو دے گا


جاتے ہوئے یک بار پلٹ کر مری جانب
وہ میری ملاقات کو توقیر تو دے گا


انگڑائیوں کے ساتھ وہ گیسو کا نظارہ
زلفوں کی مرے پاؤں میں زنجیر تو دے گا


مقصود اسے قتل ہے تو دیکھنا اک دن
ہاتھوں میں مرے دوست کے شمشیر تو دے گا


کھو جائے نہ ظلمت میں کہیں زیست یہ میری
وہ راہ وفا میں مجھے تنویر تو دے گا


انکار محبت پہ بھی رہبرؔ کو یقیں ہے
وہ ان کہی ہر بات کی تفسیر تو دے گا