پرندے ہم کو پیڑوں پر دکھائی کیوں نہیں دیتے
پرندے ہم کو پیڑوں پر دکھائی کیوں نہیں دیتے
کسی بھی شاخ پر اب گھر دکھائی کیوں نہیں دیتے
نہ تتلی ہے نہ شبنم ہے نہ کلیاں ہیں نہ غنچے ہیں
بہاروں کے بھلا منظر دکھائی کیوں نہیں دیتے
ستارے سو رہے ہیں آسماں کو گود میں تھک کر
مجھے اب چاند کے منظر دکھائی کیوں نہیں دیتے
جہاں امن و اماں کی دیویاں آواز دیتی تھیں
اب ایسے خوبرو مندر دکھائی کیوں نہیں دیتے
شرافت فخر انساں تھی کبھی ایمان و راحت تھی
زمانے میں یہ اب جوہر دکھائی کیوں نہیں دیتے
پیالے کیوں مرے ہونٹوں تک آ کر ٹوٹ جاتے ہیں
رسیلے اب یہاں ساغر دکھائی کیوں نہیں دیتے
ریا کاری ہے کیوں شیوہ ہمارے دوستوں کا اب
محبت کے یہاں گوہر دکھائی کیوں نہیں دیتے
جہاں انسان کی انسان سے ہو دوستی گلشنؔ
کسی بھی سمت ایسے در دکھائی کیوں نہیں دیتے