فقط ذوق پرواز ہے زندگی

ہماری زندگیاں مد و جزر کا مجموعہ ہیں۔ غالب نے درست کہا تھا قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں، اس لیے موت سے پہلے آدمی غم سے نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ اور ہماری زندگیوں کی نمائندگی کرکٹ کے کھیل سے بہتر کوئی کھیل نہیں کر سکتا۔

 

معروف بھارتی دانش ور، سیاست دان، سفارت کار اور مصنف جناب ششی تھرور صاحب نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "An Era of Darkness" میں کرکٹ کے کھیل کا ذکر شان دار انداز سے کیا ہے (برسبیلِ تذکرہ دو باتیں عرض کروں۔ اول یہ کہ یہ کتاب ضرور پڑھیے۔ دوم یہ کہ ششی تھرور بہت بڑا کرکٹ مداح ہے اور حالیہ ورلڈ کپ کے پاک بھارت ٹاکرے کے بعد ششی نے کہا کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ کی دیکھی ہوئی کرکٹ میں بھارت کو کبھی اس قدر زبردست انداز سے ہرایا نہیں گیا)۔ کتاب میں کیا لکھا ہے، اس کی اصل لذت تو انگریزی متن پڑھ کر ہی آئے گی، مگر قارئین کی سہولت کے لیے ترجمہ پیشِ خدمت ہے:

"اس کھیل کے بارے میں سب کچھ بھارت کے قومی مزاج سے مطابقت رکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے: اس کی زبردست پیچیدگی، ہر گیند سے جڑی لامتناہی تبدیلیاں اور ممکنات، آؤٹ ہونے کے درجنوں طریقے، یہ سب کچھ بھارتی کلاسیکی موسیقی کے جیسا ہے، جہاں بنیادی قوانین تو نافذ کیے جاتے ہیں، مگر پھر فن کار شان دار انداز دنیا و مافیہا سے لاتعلق ہو کر فی البدیہہ نغمہ سرائی کرتا ہے۔ اس کھیل کی عظیم غیر یقینی کیفیات قدیم بھارتی روایت کا پتہ دیتی ہیں: بھارتی تقدیر پرست یہ بات جبلتاً سمجھتے ہیں کہ اس وقت جب آپ گیند کو بہت عمدہ طریقے سے دیکھ رہے ہوں اور خوب صورت ٹائمنگ سے چوکے جڑ رہے ہوں، [یہ عین ممکن ہے کہ] ایک شان دار تیز گیند آپ کو بولڈ کر دے۔ ایک ایسا ملک جہاں آبادی کی اکثریت اب بھی جوتشیوں سے صلاح کرتی ہے اور سیاروں کی غیر یقینی چال پر یقین رکھتی ہے، اس کھیل کو بہت اچھے سے سمجھ سکتی ہے جہاں ایک غیر بروقت برسات، ایک بری پچ، سکے کی اچھال کی ہار اور فیلڈر کی آنکھوں میں سورج کا چمکنا میچ کا نتیجہ پلٹ کر رکھ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ امکان، کہ اعصاب شکن، دلچسپ، متحرک مقابلوں سے بھرپور اور کبھی کبھی بے مقصد پانچ دنوں کے بعد میچ بے نتیجہ رہے، بھی بھارتی فلسفے سے کشید کیا گیا امکان لگتا ہے، جو اس بات کو بدرجہ غایت تسلیم کرتا ہے کہ زندگی میں مسافرت بھی اس قدر ہی اہم ہے جتنی کہ منزل۔"

(یہ ترجمہ میں نے ہی کیا ہے۔ کمی بیشی معاف فرمائیے گا)

ششی تھرور کے یہ الفاظ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ جو باتیں ششی نے بھارت کے حوالے سے کہیں، بعینہ وہی باتیں پاکستان کے بارے میں بھی صادق آتی ہیں۔ یہ کھیل ویسا ہی ہے، جیسی ہماری زندگی۔ اور زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی۔ آپ ہمیشہ جیتتے نہیں ہیں۔ آپ ہمیشہ ہارتے نہیں ہیں۔ ایک دن اچھا، ایک کم اچھا، ایک برا، ایک پھر اچھا۔ اس گردشِ ماہ و سال میں انسان راہیِ عدم ہو جاتا ہے۔ کوشش صرف یہ ہونی چاہیے کہ انسان کبھی کوشش کرنا ترک نہ کرے۔ نتیجہ کچھ بھی ہو، انسان کے عزم و ہمت اور پایہ استقلال میں کمی نہ آنا ہی شانِ انسانیت ہے۔ ہر دم ذوقِ پرواز اور شوقِ فتح معراجِ انسانیت ہے، کہ یہ وصف انسان کو تمام تر مخلوق سے ممتاز کرتا ہوا اسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز فرماتا ہے۔ اگر آپ اپنے نصب العین کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں، اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے، تو پھر آپ جیتیں یا نہ جیتیں، یقین جانیں، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ علامہ نے فرمایا تھا:

جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر!

وہ مزاشاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں

جس خوب صورت انداز سے ہمارے شاہین اپنے شکار پر جھپٹے ہیں، اس کو الفاظ میں پرونا مجھ نکمی کے بس کی بات نہیں۔ کرکٹ دیکھتے ہوئے ربع صدی ہو چلی، ایسا شان دار تسلسل شاذ ہی دیکھا۔ پہلے ٹاکرے میں شاہینوں نے بیاباں کی خلوت میں ایسے رنگ بکھیرے کہ عدو کی صفوں سے بھی اش اش کی آوازیں آئیں۔ اس فتح کی چاشنی سے یاسیت اور اداسی کے گلشن میں خوشیوں کے رنگ بہ رنگے پھول کھلے، جن کی مسحور کن خوشبوؤں نے فضا کو تر و تازہ کیے رکھا۔ دوسرا مقابلہ باکمال انداز سے جیتا تو سیمی فائنل تک رسائی تقریباً یقینی ہوئی۔ مغربی ہم سایوں سے پالا پڑا تو اعصاب شکن مقابلے کے بعد فتح کا مزہ دوبالا ہوا۔ اگلے دو مقابلے سیمی فائنل کے لیے وارم اپ میچز ثابت ہوئے۔ سیمی فائنل کا مرحلہ آیا تو دو شاہینوں کی شرکت مشکوک ہوئی۔ اس سے کچھ دل ڈوبا مگر پھر خوش کن خبروں نے دھاڑس بندھائی۔ وہ شیر جو دو دن تک زیرِ علاج رہا، وہ گرجا، خوب گرجا، اور ایسا گرجا کہ اس کی دھاڑ نے جنگل کے تمام باسیوں پر سراسیمگی طاری کر دی۔

گیند بازی کا مرحلہ آیا تو مد و جزر جاری رہے۔ آغاز میں جس خوب صورت انداز سے اسم با مسمی شاہین آفریدی نے مخالف کپتان کو جس شکنجے میں جکڑا، تاریخِ عالم میں اس کی نظیر ڈھونڈنا بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ مخالف کپتان کے پاس اس شان دار گیند کا کوئی جواب نہیں تھا۔ شاداب خان کو اللہ سرسبز و شاداب رکھے۔ اس نے لاجواب گیند بازی کرتے ہوئے چار بہترین بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ مقابلہ تگڑا رہا۔ کبھی ان کے ہاتھ اور کبھی ہمارے۔ اور بالآخر یہ مقابلہ ہمارے لیے فتح کا پیغام نہ لا سکا، مگر یہ ہرگز ہرگز کسی پریشانی کا مقدمہ نہیں، آنے والے اچھے دنوں کا پیش خیمہ ہے۔ ہم جی جان سے لڑے ہیں، بے جگری سے بھڑے ہیں۔ یہی بات سب سے اہم ہے۔ فتح و شکست کے فیصلے تو پھر مالکِ کائنات کے سپرد ہیں۔ ہم اگر آئندہ بھی اسی عزم و ہمت سے لڑے، اور ہمارے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی، تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کی تمام کامرانیاں ہمارا نصیب نہ ہوں۔ یہ وہ رویہ ہے جو ہمیں کھیل کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں لاگو کرنا ہے۔

رہی بات ان کی جو ایک شاہین پر بے پر کی تنقید کر رہے ہیں، تو ایسی مخلوق پر ترس ہی کھایا جا سکتا ہے۔ انہیں نہ کھیل کی سمجھ بوجھ ہے، نہ اخلاقیات کا لحاظ ہے۔ یہ انسانیت کے درجے سے گری ہوئی ایک مخلوق ہے، جو ہر ملک و قوم میں پائی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنے کی شاید ضرورت نہیں۔

تو میرے بھائیو اور بہنو، پریشانی، اداسی اور یاسیت کو اپنے قریب پھٹکنے تک نہ دیں۔ جب انسان فتح و شکست کے عنوانات سے بالاتر ہو کر جان لڑا دے، تو پھر نتیجہ بے معنی ہو جاتا ہے۔ فیض کے ایک لازوال شعر پر بات کا اختتام کروں گا

جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

 

متعلقہ عنوانات