پاکستان اور افغانستان کا آپسی رویہ

آج پاکستان اسی طرح امریکی نشانے پر ہے جیسے بیس سال پہلے افغانستان تھا۔آج طا لبان کے ہاتھ میں یہ موقع ہے کہ وہ "سب سے پہلے افغانستان" کی عظیم حکمت  پر عمل کرتے ہوئے امریکہ کو پاکستان کے خلاف اسی طرح سہولیات فراہم کریں جیسے پرویز مشرف نے ان کے خلاف فراہم کی تھیں۔اس خدمت پر خوش ہو کر امریکہ نہ صرف خود ان کے اقتدار کو تسلیم کر لے گا بلکہ باقی دنیا کےلئے بھی انھیں قابل قبول بنا دے گا جیسے پرویز مشرف کو قابل قبول بنایا گیا تھا۔پھر انھیں بھی اسی طرح ڈالروں کی برسات سے نہال کر دے گا جیسے پرویز مشرف اور اس کے ہمنواؤں کو کیا گیا تھا۔

اس صورت میں ان کےلئے ممکن ہو گا کہ کابل سے پاکستانی سفیر کو اسی "عزت افزائی" سے رخصت کریں جس طرح ہم نے ملا عبدالسلام ضعیف کو کیا تھا۔غرض ان کے پاس موقع ہے کہ وہ بیس سالوں پر محیط ہماری برادر کشی کی ایک ایک روش کا چن چن کر حساب برابر کریں اور اپنے کلیجے ٹھنڈے کریں۔ان کا یہ عمل انسانی نفسیات اور جبلت کے عین مطابق سمجھا جائے گا۔ہم نے جب کیا تھا ظلم کیا تھا وہ اگر کریں تو ظلم نہیں کہلائے گا بلکہ "بدلہ" سمجھا جائے گا۔یعنی یہ صرف ہمارے ظلم کا ازالہ ہو گا۔

مگر وہ ایسا کریں تو پھر ان کی فلاسفی اور پرویز مشرف کی فلاسفی میں فرق کیا رہ جائے گا؟پھر طالب دنیا و طالب آخرت کی تمیز کیسے ہو گی؟ پھر دونوں کے نکتہ نظر اور زاویہ نگاہ میں امتیاز کیسے ہو گا؟پھر گولیوں سے لوگوں کو فتح کرنے والوں اور محبت فاتح عالم پر یقین رکھنے والوں کا پتہ کیسے چلے گا؟ پھر مومن کی بصیرت اور بے یقینی کے شکار کی حکمت عملی کا فرق کیسے نمایاں ہو سکے گا؟

 

تو جناب کابل فتح کر لینا کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں ہے۔شہر مفتوح ہوتے ہیں اور فاتحین شہروں میں گھستے ہیں۔یہ دن ہیں جو ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ آج تیری تو کل میری۔دنیا یوں ہی چلتی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ فاتح نے طرز عمل کیا اختیار کیا ہے؟ بیس سال پہلے شمالی اتحاد کی فوجیں فاتح بنی تھیں۔آج یہ لوگ فاتح ہیں۔دونوں کے کردار کا فرق ہے جس نے زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے۔آپ تہذیب یافتہ بش اور مشرف کے رعونت آمیز طرزِ عمل کو یاد کریں اور ان فاتحین کے رویے کو دیکھیں۔پھر خلوصِ دل سے فیصلہ کریں کہ شائستگی اور تہذیب کا جامہ دو گروہوں میں سے کس پر راس آتا ہے؟ یہ حکایت دل پذیر جتنی لمبی کھینچیں ،اکتاہٹ نہیں ہو گی مگر اس رویے کی تزویراتی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔

       اس اعلی رویے نے درحقیقت امریکی منصوبے پر خاک ڈال دی ہے۔اس کی توقع تھی کہ یہ لوگ اپنے انتقامی جذبات کی وجہ سے بڑی آسانی سے پاکستان کے خلاف آلہ کار بن جائیں گے۔ اس طرح "وار ود ان اسلام"

War Within Islam

کا ایک نیا محاذ کھل جائے گا۔مگر کل کے واقعات سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انھوں نےاس محاذ پر امریکہ کو کابل فتح کرنے سے بھی بڑی شکست دوچار کر دیا ہے۔اگر استقامت کے ساتھ وہ اپنے اس رویے پر جمے رہے تو پھر امریکہ کے پاس آخری مہرہ انڈیا رہ جائے گا۔جسے وہ ہلاشیری دے گا۔

لیکن اس پہلے اب ہمیں اپنا قرض رضاکارانہ طور پر چکانا ہو گا۔اس کےلئے ضروری ہے کہ پرویز مشرف والی فلاسفی اور سوچ سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔جس کےلئے ضروری ہے کہ نہ صرف میڈیا پر بٹھائے گئے ریٹائرڈ حضرات کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کیا جائے بلکہ بیانیہ کے تخلیق کاروں کو بھی نیا سبق از بر کرایا جائے۔دوسری طرف پاور کوریڈورز سے مشرف کی باقیات کا صفایا کیا جائے۔اور اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کےلئے سنجیدہ اقدامات کیئے جائیں۔

بدلے ہوئے حالات میں یہی "سب سے پہلے پاکستان" کا تقاضا بھی ہے۔کل اگر پاکستان کی خاطر اسلام سے یوٹرن لیا گیا تھا تو آج سیکولرزم سے یوٹرن لینے میں بھی قباحت نہیں ہونی چاہیئے۔کل اگر امریکہ کی خاطر اپنے بہترین آفیسرز اور جوان جیلوں کی نذر کیئے گئے یا پرائی جنگ کا ایندھن بنا کر ضائع کیئے گئے تھے تو آج پاکستان کی خاطر چند لوگ کیوں کنارے نہیں کیئے جا سکتے؟ اگر ہم بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے کو نا ڈھال سکے تو خطے کی صورتحال نے اور پڑوسی ممالک کی ضروریات نے ہمارے وجود اور بقاء کےلئے سنجیدہ مسائل پیدا کر دینے ہیں۔۔۔

متعلقہ عنوانات