پیمان وفا

روشنی کی ایک ہلکی سی کرن
ظلم کے گہرے اندھیروں سے اٹھی
دور جا کر جگمگاتی برف کے
کوہ پر انوار میں گم ہو گئی


پھول نیلا آسماں رخسار و لب
اس کرن کی راہ میں یوں آ گئے
ہم کہ جو نقد دل و جاں لے کے ساتھ
درد کی راہوں پہ تھے محو سفر
اپنے ہی آدرش سے شرما گئے
ہنس رہا ہے وقت کا زخمی کنول
زندگی کی اس سنہری مات پر
اہل دل پھر بھی رواں ہیں سوئے دار
تحفۂ جاں لے کے اپنے ہات پر


ہم نے چاہا تھا اسے ہر بزم میں
اب بھی چاہیں گے اسے ہر موڑ پر
قتل گاہ زندگی میں ہر گھڑی
اب بھی ڈھونڈے گی اسے اپنی نظر