پیکر ناز پہ جب موج حیا چلتی تھی

پیکر ناز پہ جب موج حیا چلتی تھی
قریۂ جاں میں محبت کی ہوا چلتی تھی


ان کے کوچے سے گزرتا تھا اٹھائے ہوئے سر
جذبۂ عشق کے ہم راہ انا چلتی تھی


اک زمانہ بھی چلا ساتھ تو آگے آگے
گرد اڑاتی ہوئی اک موج بلا چلتی تھی


پردۂ فکر پہ ہر آن چمکتے تھے نجوم
فرش تا عرش کوئی ماہ لقا چلتی تھی


میں ہی تنہا نہ خرابوں سے گزرتا تھا نعیمؔ
شام تا صبح ستاروں کی ضیا چلتی تھی