پیغام زندگی ہے خوشی کی نوید ہے
پیغام زندگی ہے خوشی کی نوید ہے
میرے لیے تو آپ کا دیدار عید ہے
کس نے کہا ہے زیست مرے نام کیجیے
دو پل بھی ساتھ آپ کا عید سعید ہے
اک آرزو ہے آپ مرے ہم سفر بنیں
تا عمر دیکھتی رہوں یہ شوق دید ہے
دل ڈوب جائے گا مرا بارش میں پیار کی
سیلاب عشق آنے کی شاید شنید ہے
ہر وقت میرے لب پہ رہی ہے یہی دعا
مل جائے وہ کہ جس کا مرا دل مرید ہے
بیٹھے ہیں بت بنے ہوئے ایسے وہ سامنے
ہونے کو اب نگاہ سے گفت و شنید ہے
بے شک سبیلہؔ میں نے رقم کی ہے ہے داستاں
لیکن نیا خیال ہے لہجہ جدید ہے