ہستی کو جمال دے رہا ہوں
ہستی کو جمال دے رہا ہوں میں تیری مثال دے رہا ہوں معنی پہ چڑھا کے غازۂ نو لفظوں کو خیال دے رہا ہوں ماضی پہ نگہ ہے اپنی گہری فردا کو میں حال دے رہا ہوں مشکل بھی ہے اور سہل بھی ہے ایسا میں سوال دے رہا ہوں شیشہ گری ہے عجیب میری آئینے کو بال دے رہا ہوں ماحول میں ہے کچھ ایسی ...