پہاڑوں کی بلندی پر کھڑا ہوں

پہاڑوں کی بلندی پر کھڑا ہوں
زمیں والوں کو چھوٹا لگ رہا ہوں


ہر اک رستے پہ خود کو ڈھونڈھتا ہوں
میں اپنے آپ سے بچھڑا ہوا ہوں


بھرے شہروں میں دل ڈرنے لگا تھا
اب آ کر جنگلوں میں بس گیا ہوں


تو ہی مرکز ہے میری زندگی کا
ترے اطراف مثل دائرہ ہوں


اجالے جب سے کترانے لگے ہیں
سیہ راتوں کا ساتھی بن گیا ہوں


مراہم شکل کب کا مر چکا ہے
مجھے مت چھیڑئیے میں دوسرا ہوں