اوپیک ممالک کا پیٹرول مصنوعات کی پیداوار میں کمی کا اعلان: عالمی سیاست میں کیا ہونے جارہا ہے؟

عالمی سیاست میں بچھی شطرنج پر تیل یا پیٹرول نامی ترپ کا پتہ ایک بار پھر چلا ہے اور بڑے بڑے جغادریوں کی سیٹی گم ہوئی ہے۔ ارتعاش عرب کے خطے کے بحر احمر سے لے کر بحر اوقیانوس کے پار متحدہ ہائے امریکہ تک محسوس کیا گیا ہے۔

پانچ اکتوبر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں تئیس ممالک پر مبنی تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس کا تینتیسواں  وزرا اجلاس ہوا، جس میں ان تئیس ممالک کی جانب سے یومیہ دو ملین بیرل پیٹرول کی پیداوار میں کمی کا اعلان سامنے آیا۔ یہ اعلان یورپ سے لے کر امریکہ  تک ہزار واٹ کا جھٹکا تھا جو  کہ روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے پہلے ہی توانائی کے بحران کا شکار ہیں۔ اس اعلان  سے نہ صرف مغربی ممالک میں توانائی کا بحران بڑھنے کا خدشہ ہے، بلکہ سپلائی کم اور مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے گیس اور پیٹرول دونوں کی قیمتیں بھی چڑھ جائیں گی۔ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا، جسے روکنے کے لیے مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کریں گے۔  نتیجتاً معیشت مزید سست روی کا شکار ہوگی اور کساد بازاری یعنی سیشن کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔

پیٹرول پیداوار کمی کا بائیڈن اور ان کی جماعت کو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟

محسوس ہوتا ہے سعودی عرب اور روس نے بڑے وقت پر پوری سیاسی کیلکولیشن کرتے ہوئے یہ چال چلی ہے۔ جوبائیڈن اس چال کو لے کر کس قدر سنجیدہ تھے، آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کچھ دیر پہلے بائیڈن خود چل کر سعودی عرب آئے تھے اور شیخوں کو پیٹرول کی پیداوار میں اضافے کی گزارش کی تھی۔ لیکن سعودی عرب جو کہ دنیا میں پیٹرول کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے، نے الٹا روس کے ساتھ مل کر یومیہ پیٹرول کی پیداوار میں کمی کر دی۔ بائیڈن اس چال کی وجہ سے اپنے ملک کے اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں  پر شدید دباؤ میں آ گئے ہیں۔

اندرونی محاذ پر اس لیے کے امریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ سروے بتا رہے ہیں کہ بائیڈن کی جماعت بائیڈن کی کارکردگی کی وجہ سے عوامی شہرت کھوتی جا رہی ہے۔ اب جب پیٹرول کی قیمتیں چڑھنے سے مہنگائی مزید ہوگی تو ان کی جماعت کا وسط مدتی انتخابات میں سیاسی نقصان ہو جائے گا۔ دوسری طرف سعودی عرب کو پیداوار گھٹانے سے روکنے میں ناکامی کو بائیڈن کی سفارتی ناکامی گردانا جائے گا۔ بائیڈن کے مخالف ٹرمپ اس پر خوب کھیلیں گے، یہ کہتے ہوئے کہ ان کے سعودی حکام سے تعلقات بہت اچھے تھے۔ اگر وہ بر سر اقتدار ہوتے تو سعودی عرب یہ کبھی نہ کرتا۔

بیرونی محاذ پر بائیڈن اس لیے دباؤ میں آئیں گے کہ ان کے اتحادی یورپ کو مزید توانائی کی کمی کا سامنا ہوگا۔ ایک طرف پیٹرول کی سپلائی کم ہوگی، دوسری طرف سردیاں سر پر ہیں، پہلے سے کم گیس کہاں کہاں کی کھپت پوری کرے گی؟ مانگ میں اضافے سے تو گیس کی قیمتوں کو مزید پر لگ جائیں گے۔ پورا یورپ بلبلا اٹھے گا۔ اتحادی ممالک  بائیڈن پر دباؤ ڈالیں گے کہ جناب کچھ کریں۔ ایک طرف سردی ہے دوسری طرف مہنگائی قابو میں آ کر نہیں دے رہی۔

سعودی عرب اور روس کو تیل کی کمی سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

سعودی عرب اور روس دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔ سعودی عرب تیرہ فیصد جبکہ روس بارہ فیصد دنیا کی کل تیل کی سپلائی کا پیدا کرتا ہے۔ امریکہ کے اپنے اندازے کے مطابق اوپیک پلس کے تئیس ممالک تیل پیداوار کا پچاس فیصد سے زائد پیدا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جب تیل کی قیمتیں چڑھیں گی تو پیداواری ممالک براہ راست فائدہ اٹھانے والے ہوں گے۔

واشنگٹن پوست کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے پیوٹن یوکرائن میں جنگ جاری رکھنے کے لیے پیسہ اکٹھا کر پائیں گے۔ دوسری طرف سعودی عرب جہاں معاشی فائدہ اٹھا رہا ہے وہاں امریکہ پر ایک اور حوالے سے دباؤ بڑھا پائے گا۔

مشرق وسطیٰ پر رپورٹ کرنے والے خبر رساں ادارے مڈل ایسٹ مونیٹر کے ایک تجزیے میں بتایا گیا کہ اس اقدام سے سعودی عرب یمن کی جنگ میں امریکہ سے تعاون مانگ رہا ہے۔  آپ کو تو پتہ ہے یمن میں حوثی باغی ہیں، جو کہ ایران کی مدد سے سعودی عرب پر میزائل داغ کر ان کے اہم اثاثہ جات تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ وہ سعودی آرام کو کی تنصیبات پر حملہ کر کے کر بھی چکے ہیں۔ سعودی عرب نے ان باغیوں سے امن معاہدہ کیا تھا جو کہ دو اکتوبر کو ختم ہو گیا ۔ اب سعودی عرب کو ان سے خطرہ ہے۔ اب سعودی عرب امریکہ  پر  دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ تمام معاملے میں ثالثی کرے، یعنی ایران اور اس کے حوثی باغیوں کے ساتھ سعودی شرائط پر معاملات طے کروائے۔

پاکستان اور دیگر غریب ممالک کو کیا نقصان ہے؟

یہ تمام باتیں تو ہیں عالمی سیاست میں بڑوں کی۔ ہم سے غریبوں کا تو  پیٹرول کی عالمی قیمت میں اضافے  کا نقصان صاف ہے۔ اسحاق ڈار صاحب نے جو پیٹرول کی قیمت میں بارہ روپوں کی  کمی کر کے عوام کو تحفہ دیا تھا، شاید انہیں واپس لینا پڑے۔ اسی طرح ہم سے دوسرے غریب ممالک بھی اس مہنگائی کو بھگتیں گے جو پیٹرول کو درآمد کرتے ہیں۔ اب ہاتھیوں کی لڑائی میں چیونٹیاں تو پستی ہی ہیں ناں بھئی۔

متعلقہ عنوانات