عالمی سیاست میں قطر کا رول اتنا بڑا کیسے ہوگیا ؟

ہماری پنجابی زبان میں ایک محاورہ ہے: "جنھاں کار دانے اونھاں دے کملے وی سیانے" یعنی جو گھر خاصا کھاتا پیتا اور صاحب استطاعت ہو، اس گھر کے بےوقوف بھی عقل مند سمجھے جاتے ہیں۔     میں جانتا ہوں کہ آپ اس محاورے سے اتفاق کریں گے۔ لیکن قطر کے معاملے میں یہ محاورہ کچھ کمزور کمزور سا لگنے لگتا ہے۔ کیونکہ یہاں کے شیخ واقعی بڑے سیانے ہیں۔  اب آپ پوچھیں گے شیخ اور سیانے! بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟  تو جناب یہ دنیا انہونیوں کی آماج گاہ ہے۔ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ اپنی آنکھیں کھولیں۔ قطری شیخوں کا تعارف قطری خط سے کہیں بڑھ کے ہے۔  یہ اپنے ننھے سے دیس میں  جب  عالمی  سیاست کھیلتے ہیں تو بڑے بڑے مغربی جغادری بھی دانتوں میں انگلیاں دے کر انہیں دیکھنے لگتے ہیں۔  ان شیخوں کے دیس پر کتابیں کچھ ایسے نام سے  چھپتی ہیں Qatar: Small State, Big Politics

               میں آپ کو ذرا سی جھلک دکھاتا ہوں جس کی وجہ سے مغربی مصنفین قطر پر کتب کو اس قسم کے نام دینے پر مجبور  ہوئے ہیں۔ آپ ذرا گوگل تو کریں  کہ مشرقی وسطیٰ میں سب سے بڑی امریکی عسکری بیس کہاں ہے۔ جھٹ سے آپ کے سامنے العدید امریکی بیس آ جائے گی جو دوہا سے  کچھ کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔  جب آپ اس امریکی بیس کو اپنی آنکھوں سے گوگل پر دیکھ لیں تو پھر اگلی سرچ کیجیے گا کہ اخوان المسلمون اور حماس جیسی تنظیموں کے  بیشتر رہنما کہاں پائے جاتے ہیں۔  کون انہیں فنڈ کر رہا ہے۔ ایک دفعہ پھر آپ قطر  کو سرفہرست پائیں گے۔  آپ پریشان ہو جائیں گے کہ قطر اس طرف ہے یا اُس طرف۔ یہی نہیں۔ آگے آگے پڑھیے۔ قطر پورے جزیرہ نما عرب میں واحد ملک ہے جو سعودی عرب سے ہٹ کر اپنی خارجہ پالیسی رکھتا ہے اور ایران سے اچھے تعلقات رکھتا ہے۔    قطر جب اپنا الجزیرہ چینل چلاتا ہے تو امریکی سمیت دیگر یورپی اقوام میں رائے عامہ  اثر  قبول کرتی ہے۔  ایک طرف جہاں اس نے مغربی انٹیلجنشیا کو اپنا ہمنوا بنا رکھا ہے تو وہیں علامہ یوسف القرضاوی جیسے جید عالم دین اس کے مفتی اعظم ہیں۔ امریکہ اپنی تاریخ کی سب سے لمبی جنگ میں پھنستا ہے تو قطر کو آواز دیتا ہے اور طالبان اپناسیاسی دفتر       کھولنے کے لیے کسی پر اعتماد کرتے ہیں تو وہ بھی قطر ہی ہوتا ہے۔  

               آپ سوچتے ہوں گے  کہ قطرکو امریکیوں نے صرف اسلام پسند تحریکوں سے بات چیت کے لیے رکھا ہوا ہے تو آپ کو قطر  کئی جگہ پر امریکی پالیسیوں کے برعکس  چلتا دکھائی دیتا ہے۔ جیسا کہ  جب امریکہ نے اردغان سے تعلقات بگڑنے پر  ترکی لیرا لیرولیر کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ قطر ہی تھا جو ترکی کی مدد کو آن دھمکا اور اربوں لیرا خرید کر اسے ٹکے ٹوکری ہونے سے بچا لیا۔ اسی طرح قطر تین سال تک سعودیہ کی قیادت میں عرب بائیکاٹ سہتا رہا لیکن ایک انچ بھی اپنے موقف سے نہ ہٹا۔   آخر کار سعودی عرب کو ہی برف پگھلانا پڑی۔

               آج فیفا ولڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ قطر میں ہو رہے ہیں۔ کوئی عرب ملک اگر اپنا انحصار تیل سے کامیابی سے ہٹا رہا ہے تو وہ قطر ہے۔ سمارٹ سٹی و  علم پر مبنی معیشت کسی اسلامی ملک میں کھڑی ہو رہی ہے تو  وہ قطر ہے۔  اور ان سب چیزوں کے پیچھے قطری حکمران خاندان الثانی اور اس کے فرماروا شیخ تمیم الثانی ہیں۔

               آپ سوچ رہے ہوں گے کہ قطری شیخ  تو بہت تیز ہیں۔ ہر طرف اپنا وزن ڈالتے ہیں اور بعد میں اچھے بچے بھی بن جاتے ہیں۔ تو بھئی سمجھ لیجیے کہ قطری شیخ تیز نہیں سمجھدار ہیں۔ اسی سمجھداری کی بنا  پر انہوں نے اپنی ایک متوازن خارجہ و داخلہ پالیسی بنا رکھی ہے۔ وہ چیزوں کے مابین توازن کو بگڑنے  نہیں دیتے اور یہی ان کی سیاست ہے۔   نہ ہی وہ ڈالر کی خاطر اپنے ہی  بھائی پکڑ پکڑ کر امریکہ کو بیچتے ہیں اور نہ ہی پرائے مفادات کی جنگ میں کودتے ہیں۔   یہ ٹھیک ہے کہ قطری خارجہ پالیسی میں  امریکہ کی طرف جھکاؤ  دکھائی دیتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس جھکاؤ میں ان کی پوری قلع بازیاں نظر آتی ہیں۔   امریکہ کے ساتھ تعاون ہے لیکن ایک حد تک۔  اسی طرح اپنے حقوق کی خاطر  لڑتی اسلامی تحاریک مثلاً اخوان المسلمون اور حماس وغیرہ کی حمایت ہے ، لیکن اپنا پلو بچا کر ،حکمت کے ساتھ۔

               آج بھی جب یوکرائن کےمسئلے پر امریکہ نے یورپی ممالک کے  معاشی تحفظ کے لیے قطر  کو پکارا ہے تو  اس نے ایسا نہیں ہے کہ تعاون سے انکار کر دیا ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ امریکہ کی پکار پر سر کے بل بھاگ دوڑا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اگر روس یورپی ممالک کی گیس بند کرتا ہے  تو قطر انہیں  گیس پہنچائے گا اور انہیں بحران میں گھرنے سے بچائے گا۔ اس پر قطر جو کہ امریکہ کے بعد دوسرا بڑا دنیا کا ایل این جی پیدا کرنے  والا ملک ہے، نے حامی تو بھری ہے لیکن شرائط کے ساتھ۔  اسی طرح افغانستان سے امریکی لوگ نکالنے کے لیے قطر نے طالبان کو بھی امریکہ کے لیے منایا ہے۔ لیکن اس طرح منایا ہے کہ  طالبان کی طرف سے کوئی گلہ شکوہ سننے کو نہیں ملا۔  یہی ہے انداز ایک عالمی سوپر پاور کے دباؤ کے ہوتے ہوئے چیزوں کو اعتدال سے لے کر چلنے کا۔ غلطیاں ہوتی  ہیں اس طرح چلنے میں بھی اور بعض  اوقات آپ پوری طرح سچ کے ساتھ دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا کہ آپ ظلم کی صفوں میں شامل ہو جاتے  ہو۔ میری رائے میں شاید مسلم امہ میں اس وقت قطر واحد قوت ہے  جو ایک مثبت سیاست کر رہا ہے، اعتدال و حکمت کے ساتھ۔ اگرچہ اس کی بھی بعض پالیسیوں  پر تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن دوسرے ممالک کی نسبت خاصی کم۔

متعلقہ عنوانات