ہٹلر کے جرمنی میں جمہوریت اور رواداری کی علم بردار

اس ماہ کی چھبیس تاریخ کو جرمن اپنی وفاقی مجلسِ قانون ساز کے ارکان کا انتخاب کریں گے۔ یہ الیکشن اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ عالمی سیاست کی ایک اہم شخصیت، جرمن  چانسلر اینگلا مرکل اس الیکشن میں حصہ نہیں لے رہیں۔ اکیس سال تک اپنی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی سربراہ اور سولہ برس تک مسلسل جرمنی کی سربراہِ حکومت رہنے کے بعد چانسلر مرکل سیاست سے ریٹائر ہورہی ہیں۔

مرکل کو دنیا کی سب سے طاقتور خاتون تسلیم کیا جاتا تھا۔ وہ جرمنی کی قائد ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کی ڈی فیکٹو لیڈر بھی سمجھی جاتی تھیں کیونکہ جرمنی ہی اس کنفیڈریشن کا سب سے بڑا، امیر اور فیصلہ کن ملک ہے۔

مرکل کا تعلق ایک مڈل کلاس مذہبی خاندان سے ہے۔ والد پادری اوروالدہ ٹیچر تھیں۔ یہ لوگ مشرقی جرمنی میں رہتے تھے جو کمیونسٹ اور پسماندہ تھا۔ ان مشکل حالات میں مرکل اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے سائنسدان بنیں اور اپنے بل بوتے پر اپنی زندگی کو بہتر بنایا۔ 1989 میں اشتراکی آمریت ختم ہونے کے بعد مشرقی جرمنی کی پہلی جمہوری حکومت کی ترجمان کے طور پر سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا۔ دیوار برلن گرنے کے بعد متحدہ جرمنی میں دائیں بازو کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے وابستہ ہوئیں۔ پہلے عورتوں اور نوجوانوں اور پھر ماحولیات کی وزیر رہیں۔ سن دو ہزار میں انٹرا پارٹی الیکشن میں اپنی سیاسی جماعت کی سربراہ منتخب کی گئیں، پانچ برس بعد دو ہزار پانچ کے الیکشن میں کرسچن ڈیموکریٹ سب سے بڑا پارلیمانی گروپ بن گئے اورمرکل ایک مخلوط حکومت کی چانسلر بن گئیں۔ اس کے بعد مسلسل چار الیکشنز میں مرکل کی کامیابیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔

مرکل کا دورِ حکومت کئی بحرانوں سے عبارت ہے۔ دو ہزار آٹھ کا معاشی بحران اور قرضوں کا بحران، شامی مہاجرین کا بحران اور مغربی اتحاد کا بحران (ٹرمپ و بریگزٹ)۔۔۔ اور آخر کورونا وائرس کی وبا اور اس کے معاشی نتائج کا بحران۔ ان تمام بحرانات میں یورپ کی قیادت مرکل نے ہی کی۔

معاشی معاملات میں مرکل بائیں بازو کی روایتی احتیاط اور توازن کی قائل تھیں اور معاشی بحرانات کے باوجود بے دریغ پیسہ خرچ کرنے اور ملک کو مقروض کرنے سے گریز کرتی تھیں، لیکن یورپی یونین کی حامی ہونے کے سبب یونان جیسے ملکوں کی مالیاتی مدد کرکے اس اتحاد کو بچانے والی اور پھر کورونا وباء میں پانچ سو ارب ڈالر کا پیکیج دینے والی بھی مرکل ہی تھیں۔ ملٹی کلچرل الزم کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرنے اور غیر معذرت خواہانہ طور پر مسیحی ہونے کے باوجود پورے یورپ میں صرف مرکل نے ہی کھلے دل سے مسلم شامی مہاجرین کا استقبال کیا اور اپنی پارٹی و ووٹ بینک کے ایک بڑے حصے کی ناراضی مول لی۔ مرکل کا کہنا تھا کہ جرمنی کا مسئلہ اسلام کا پھیلنا نہیں ہے، جرمنی کا مسئلہ مسیحیت کا سکڑنا ہے۔ ہمیں مسلمانوں کو روکنے کی نہیں بلکہ نوجوانوں کو مسیحیت بیزاری سے بچانے کی کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانیت کا مظاہرہ کیا جائے اور مسیحیت کی ہمدرد تصویر پیش کی جائے۔ اسی طرح مغربی تہذیب، مفادات اور اتحاد کی وکیل ہونے کے باوجود چین اور روس جیسی طاقتوں سے بات چیت میں وہ عملیت پسند رہیں اور کبھی ان ملکوں سے تعلقات نہیں بگاڑے۔  لبرل جمہوریت کی سب سے بڑی علم بردار، بورس و ٹرمپ کی ناقد اور ان دونوں کی تنقید کا ہدف ہونے کے باوجود امریکہ و برطانیہ سے تعلقات میں سرد مہری کو کشیدگی میں نہیں بدلنے دیا۔ ماحولیاتی تحفظ کی بھرپور حامی اور اس ضمن میں تمام عالمی رہنماؤں سے زیادہ کام کرنے  کے باوجود اس حوالے سے غیر حقیقت پسندانہ اقدامات کرکے معیشت کو نقصان نہیں پہنچایا، اگرچہ یہ جرمنی کا ایک بہت بڑا سیاسی مسئلہ ہے اور ماحولیاتی جماعت نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہوئی ہے۔گویا مرکل کا پورا کیرئیر اعتدال پسندی، توازن اور ایک باریک  سی  ڈور پر چلنے سے عبارت ہے۔ اسی ٹھہراؤ اور معقولیت کے سبب وہ اتنی مقبول تھیں کہ جرمن انہیں چانسلر کی بجائے ’مُتی‘ یعنی امّاں کہتے اور مسلسل چار الیکشنز میں انہیں اپنی قیادت سونپی۔  

مرکل نے بہت پہلے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا لیکن گزشتہ تین برس سے ان کی جماعت ان کا کوئی متفقہ اور تسلی بخش جانشین منتخب نہیں کر پا رہی تھی۔ آخر ایک ریاستی وزیراعلیٰ آرمین لاشیت کو لیڈر بنایا گیا لیکن اس امیدوار کو مرکل جیسی مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔ گزشتہ چند ہفتوں کے اندر سروے پولز میں سوشل ڈیموکریٹس کرسچن ڈیموکریٹس سے آگے نکل گئے ہیں۔ غالب امکان ہے کہ مرکل کے وزیر خزانہ اور وائس چانسلر، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی موجودہ سربراہ اولاف شولتس جرمنی کی نئی مخلوط حکومت کے سربراہ ہوں گے۔ شولتس ایک معتدل سوشل ڈیموکریٹ ہیں اور سیاستدان سے زیادہ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ طویل المدتی تناظر میں ان کے مقبول لیڈر بننے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور مرکل والی وسیع النظری اور ویژن سے بھی وہ محروم ہیں۔ یوں بھی عرصہ ہوا، بایاں بازو بڑے لیڈر پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے۔ مرکل کے بعد جرمنی ہی نہیں، پورے یورپ بلکہ پورے مغرب میں کوئی بڑا اور ویژنری لیڈر نہیں رہا۔ یوں مغرب اور بالخصوص یورپ کا بحران ایک نئے اور مشکل مرحلے میں داخل ہوگیا ہے، خاص کر اس وقت جب وباء سے نمٹنے کے لیے یورپ قرض میں ڈوب گیا ہے اور عالمی معاملات مین چین و روس کھل کر اپنی طاقت اور ارادوں کا اظہار کررہے ہیں۔

مرکل سے قبل مارگریٹ تھیچر اس قد کاٹھ کی لیڈر گزری ہیں۔ تھیچر اور مرکل میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں مڈل کلاس مذہبی بیک گراونڈ سے آئیں، دونوں رائٹ ونگ کی لیڈرز تھیں، دونوں نے لمبے عرصے حکومت کی اور مسلسل الیکشنز جیت، دونوں کی لیڈر شپ فیصلہ کن تھی۔ لیکن تھیچر اور مرکل میں بہت فرق بھی تھا۔ تھیچر انتہائی نظریاتی بلکہ ریڈیکل تھیں، سمجھوتے پر تیار نا ہوتی تھیں۔ مرکل اپنی عملیت پسندی، اعتدال اوردونوں فریقین کے لیے قابل قبول سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت کے سبب جانی جاتی ہیں۔ تھیچر دائیں بازو کے کنزرویٹو مکتب فکر سے تھیں اور یورپی اتحاد کو مزید مضبوط بنانے اور اسے کنفیڈریشن میں بدلنے کی مخالفت تھیں جبکہ مرکل نے کرسچن ڈیموکریٹ ہونے کے ناطے یورپی یونین کو بچایا اور مضبوط بنایا۔ تھیچر امریکی لیڈر شپ کو پسند کرتی تھیں جبکہ مرکل نے مغربی دنیا میں بلاشرکتِ غیر، امریکی لیڈر شپ کے خاتمے کے وقت اپنی قیادت پیش کی۔

ان دونوں خاتون رہنماؤں کی زندگی اور سیاست متاثر کن ہے۔ حقیقی جمہوریت کیا ہے اور لیڈر شپ کسے کہتے ہیں، ایسے ہی لیڈرز کو دیکھ کر یہ بات پتہ چلتی ہے۔