کریمنل ٹرائبز ایکٹ

 آج سے ٹھیک ڈیڑھ سو سال قبل، بارہ اکتوبر 1871 کو  انگریز نے کریمینل ٹرائبز ایکٹ کا کالا قانون نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت

1۔جنوبی ایشیاء کی کئی برادریوں کی شناخت پر پابندی لگا دی گئی۔

ان برادریوں کو بحیثیت ِمجموعی مجرم قرار دے دیا گیا۔

ان برادریوں کے لوگوں پر لازم کردیا گیا کہ ہفتے میں ایک بار تھانے حاضر ہوں۔

سرکاری نوکریوں اور کاروبار سمیت کئی حقوق سے انہیں محروم کردیا گیا۔

کسی کا کسی برادری سے صرف تعلق ہونا اس کے خلاف شک کی بنیاد قرار دے دیا گیا۔

ان برادریوں کے افراد کی آزادانہ نقل و حرکت ممنوع قرار دے دی گئی۔

ان برادریوں کے لوگوں کے خلاف کاروائی کے لیے انتظامیہ کو خصوصی ماورائے عدالت اختیار دئیے گئے۔ کئی قبائل بالخصوص خانہ بدوشوں کو زبردستی ایک جگہ سے لے جا کر کسی اور جگہ بسایا گیا۔

دراصل انگریز نے جب ہندوستان کے ذات پات پر مبنی معاشرے کو دیکھا کہ مختلف کام مختلف قوموں اور ذاتوں اور قبیلوں سے مخصوص ہیں تو اس نے سوچا کہ چوری چکاری، راہزنی، ٹھگی وغیرہ بھی کچھ مخصوص قبائل کا کام ہے۔ چونکہ غربت کی چکی میں پسنے والے قبائل ہی چوری چکاری میں زیادہ ملوث ہوتے تھے لہذا ان غریبوں کے پورے قبیلوں اور ذاتوں کو مجرم قرار دے دیا گیا۔ یہی رویہ ان کا امریکی سیاہ فام افراد کے ساتھ رہا۔

یوں انگریز نے ہندو تہذیب کے بدترین نظامِ ذات پات کو اپنی کج فہمیوں اور نسل پرستی کے سبب مضبوط تر اور بدتر بنا دیا۔

اس قانون سے زیادہ تر "نچلی ذاتوں کے" ہندو متاثر ہوئے لیکن کچھ مسلم برادریوں جیسا کہ گجر، میراثی اور کنجروں کو بھی مجرم قرار دیا گیا۔

میراثیوں اور کنجروں کے حوالے سے جو نسل پرستانہ تعصب ہمارے سماج میں پایا جاتا ہے وہ ہماری کوئی پرانی روایت نہیں ہے بلکہ اسی انگریزی قانون سے پیدا ہوا۔ انگریز سے قبل کنجر موسیقی کے آلات بنانے والے اور انہیں بجانے والوں کو جبکہ میراثی مسلمانوں کے شجرہ نسب کا ریکارڈ رکھنے اور شادی بیاہ پر مزاح اور موسیقی سے انٹرٹینمنٹ مہیا کرنے والوں کو کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ مسلمان ہی ہوتے تھے اور مسلم سماج دیگر قوموں کی طرح ہی ان سے معاملہ کرتا تھا۔

اس کالے قانون سے خواجہ سرا کمیونٹی بھی بہت متاثر ہوئی۔ اس پوری کمیونٹی کو بھی مجرم قرار دے دیا۔ انگریز میں اس وقت خواجہ سراؤں کو وہ آزادیاں حاصل نہیں تھیں جو برصغیر، خصوصاً یہاں کے مسلم سماج میں حاصل تھیں لہذا انگریزوں کے ہاں خواجہ سرا کلچر موجود نہیں تھا۔ جب انہوں نے ہمارے خواجہ سرا دیکھے تو اسے بھی ہمارے سماج کی بدتہذیبی اور جہالت بتایا اور اسے روکنے کہ کوشش کی۔

اس سے قبل برصغیر میں خواجہ سرا کی تحقیر کی روایت موجود نہ تھی بلکہ وہ معاشرے کا فعال حصہ تھے، دوسرے لوگوں کی طرح باعزت طریقے سے کماتے تھے، شاہی درباروں اور مزاروں سے منسلک تھے، انہیں ایک خاص طرح کی تقدیس حاصل تھی اسی لیے ان کی بددعا کو بہت موثر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن انگریز کے تعصب سے متاثر ہوکر ہمارے ہاں بھی خواجہ سراؤں سے تعصب اور امتیاز برتا جانے لگا۔

اس قانون کے بعد خواجہ سراؤں پر روزگار کے دروازے بند ہوگئے، وہ اپنے ڈیروں میں چھپ گئے، ان پر پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کے جنسی و جسمانی تشدد کا باب کھلا اور جب کچھ سانس لینے کا موقع ملا تو ان کے پاس گانے بجانے، بھیک مانگنا اور  خیرات ہی زندگی بسر کرنے کا واحد وسیلہ رہ گیا۔

آج جب وہی انگریز ہمیں آکر برابری، انصاف، قانون کی نظر میں برابری، آزادی اور خواجہ سراؤں کے حقوق پر لیکچر دیتا ہے تو اس کی منافقت اسے اتنی اجازت نہیں دیتی کہ اپنی کرتوتوں پر معافی ہی مانگ لے۔