نیاز عشق ہے ناز بتاں ہے
نیاز عشق ہے ناز بتاں ہے
محبت کائنات دو جہاں ہے
حجابات تعین اٹھ رہے ہیں
نگاہ شوق تیرا امتحاں ہے
مسرت بھی بڑی نعمت ہے لیکن
ترے غم سے مجھے فرصت کہاں ہے
نہ رہبر ہے نہ جادہ ہے نہ منزل
نگاہوں میں غبار کارواں ہے
ترے نقش قدم پر چل رہا ہوں
خدا جانے مری منزل کہاں ہے
مرا ذوق سیہ کاری نہ پوچھو
تمہارے ہی کرم کا امتحاں ہے
یہی شاید ہے تکمیل تصور
مجھے خود پر بھی اب ان کا گماں ہے
تم اپنے غم کی عظمت مجھ سے پوچھو
تمہارا غم حیات جاوداں ہے
یہ دنیا ہے رئیسؔ سوختہ جاں
یہاں ہر گام پر اک امتحاں ہے