نروان

بدھسوا تنہا بیٹھی سوچ رہی تھی کہ سدھارت بدھا کیسے بن گیا۔اس کو نروان کیسے مل گیا۔ برہمنیت کا غرور خاک میں ملا نا کو ئی آسان کام نہیں تھا ۔ نا ہی بدھی ریاضت میں کو ئی آسانی تھی ۔ ضبط کے بھی روزے کی انتہا ، تو پھر نروان کیسے اور کیونکر مل سکتا ہے۔ اس کی سوچیں ابھی ذاتی جنگ میں مبتلا تھیں کہ ایک گردش کرتی تصویر نے اس کے تن من میں آگ لگا دی۔ اتنی برہنہ تصویرکہ عریانی بھی شرمارہی تھی ۔ اسے سمجھ آگیا۔ نروان کیسے مل سکتا ہے۔ ہر دور کا نروان الگ ہو تا ہے ۔ نروان کے تقاضے الگ ہوتے ہیں۔ وقت کی اپنی اٹھان ہو تی ہے۔ جو اپنے سنگ کچھ لے کر اٹھتا ہے۔ تنہا سفر نہیں کرتا۔
ابھی یہ سب اس پہ منکشف ہو ہی رہا تھا کہ ویران صحرا میں من مندر کی گھنٹیوں کی آواز سنائی دی۔ بہت سناٹا تھا۔ بہت اداسی تھی ۔بہت خوف تھا ۔یہ آواز نہیں تھی ۔گویا نروان کا کو ئی روزہ تھا۔ جس کا سائرن بجا تھا۔
بیٹا تم سے ایک بات کر نی ہے۔تم سمجھ دار ہو مجھے یقین ہے میری بات کو اس کی گہرائی تک سمجھ سکتی ہو۔
دور دور تک ہوائیں سننانے لگیں۔ کوئی طوفان آنے والا ہے ؟من سے من سے پوچھا۔
جی آنٹی کیجئے۔ میں پوری کوشش کروں گی کہ آپ کی بات سمجھ سکو ں۔
بیٹا میرے بیٹے نے خواب میں دیکھا ہے اس کے پاس ایک پری آئی ہے۔ میں اس کے لئے رشتہ ڈھونڈ رہی ہو ں۔ میں نے بہت سی لڑکیاں دیکھیں ۔ لیکن جیسی پری وہ بتاتا ہے ۔ویسی کوئی نہیں ملی ۔ جب اس روز میں نے تم کو دیکھا تو مجھے لگا ۔وہ تم ہی ہو ۔ ہو بہو ویسی ہی ۔کسی پری کی طرح حسین، کسی پری کی طرح معصوم و کومل ۔
نروان کا روزہ بار بار ٹوٹنے کو تھا ۔ ایک ابکائی آتی اور واپس چلی جاتی۔
بیٹا مجھے پتا ہے ۔ تم دونوں کی تعلیم کا بھی بہت فرق ہے۔ عمر کا بھی بہت فرق ہے۔ توبھلا اس رشتے میں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ رشتہ کو ئی خون کا بھی نہیں ہے ۔جو توڑا نا جا سکے۔تم میری بات سمجھ رہی ہو ناں۔۔۔
جی آنٹی ، جی سمجھ رہی ہو ں۔
بیٹا میں بہت لبرل ہو ں۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ دوستو ں کی طرح رہتی ہو ں ۔ وہ مجھ سے ہر بات شئیر کرتے ہیں ۔ میں نے ان کو یہ ماحول اس لئے دیا ہے تاکہ وہ اپنے دل کی بات باہر والوں سے شےئر نا کریں ۔ میں تمہیں بھی یہی آزادی دوں گی۔ اس سے بھی زیادہ آزادی دوں گی ۔ تمہارا پاسپورٹ بنا ہوا ہے ناں ؟ بس تم کو جہا ں موقع ملے جانا ۔ جس طرح تمہاری سوچ لبرل ہے ۔ایسی ہی زندگی گزارنا۔ وہ تمہارے رستے کی رکاوٹ نہیں بنے گا۔ میں اسے تمہارے رستے میں نہیں آنے دوں گی۔ میں خود تمہارے ساتھ کھڑی ہونگی۔ تم سمجھ دار ہو میری بات کو سمجھو گی ۔ میں جانتی ہوں۔
اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اتنا مشکل تھا نروان ملنا تو کا ش خواہش ہی نا کرتی ۔خواہش کر ہی لی تھی تو اس میں اتنی طاقت ہی نا ہوتی ۔ بعض خواہشیں نجانے کیو ں دعا سے زیادہ طا قت رکھتی ہیں۔ کہ کوئی دعا ہی اس کے رستے کی رکاوٹ بننے کی گستاخی نہیں کرتی ۔ کچھ ایسا ہی انہونا سا ہوا تھا۔
بیٹا دیکھو اللہ نے تمہیں ہر چیز سے نوازا ہے۔ میرے بیٹے کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے ۔بس ایک ہی خواہش ہے ۔ وہ بہت پیاسا ہے بیٹا ۔اس بہت ترساہواہے۔ گناہ اس کے بس کی بات نہیں۔ اس کی بیوی سے اس کی بنی نہیں ۔ میں اس کو بھی طلاق دلوا دوں گی ۔ اس کی ایک بیٹی بھی ہے۔ اس کو میں خود رکھو ں گی ۔ تم پہ کوئی بوجھ نہیں ہو گا۔ بس تم میرے بیٹے کا خیال رکھ لینا۔اس کی پیاس بجھا دینا۔وہ کہتا ہے امی وہ خواب والی پری ہی ایسا کر سکتی ہے۔اور بیٹا وہ پری تم ہی ہو ، میرا دل کہتا ہے۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہئے اس کی خوشیا ں چاہیں ۔ وہ بھی تمہیں ہمیشہ خوش رکھے گا۔ تمہاری ہر خواہش ، ہر ضرورت پوری کرے گا۔ تمہارا خیال رکھے گا۔ تمہیں پیار کرے گا۔ وہ خود پیار کا پیاسا ہے ۔ سمجھتا ہے پیار کیا ہے۔ تمہیں ہر آسائش دے گا۔ تمہیں وہ سب دے گا ،جو یہا ں نہیں ملا۔
وہ اپنے اندر ہی ڈوب کے مر جانا چاہ رہی تھی ۔لیکن دریا اس کو اگل دیتا تھا۔
’’لیکن آنٹی جو عورت دنیا تیاگ چکی ہو ۔وہ ان جھولو ں میں کیسے جھولے گی؟،،
بیٹا تمہارا دل بند ہو چکا ہے۔ کو ئی آئے گا تو کھلے گا ناں۔ دل دروازہ ہو تا ہے ۔وہ کھْل گیا تو تم دنیا میں واپس آجا و گی۔ اور بیٹا یہ کو نسا خون کا رشتہ ہے ۔جو توڑا نہیں جا سکتا۔ اگر تمہارادل اسکے ساتھ نا ملے تو طلاق لے لینا۔ اگر تم کو بعد میں کو ئی اور مرد پسند آجائے تو بھی طلاق لے کر اس سے شادی کر لینا ۔ میں تمہارے ساتھ کھڑی ہونگی ۔ تم تب بھی مجھے اپنے ساتھ پاوں گی۔
وہ پری بن کے ہی اڑجانا چاہتی تھی ۔ مگر انسان تھی ۔ بے بس تھی۔ خاموش تھی۔
دیکھوبیٹا تم اپنا کاروبار بھی کر سکتی ہو۔ وہ تمہارا ساتھ دے گا۔ خوب پیسا کمانا ۔ دنیا گھومنا ۔ مزے کرنا ۔ اس نے تمہیں کونسا روکنا ہے۔ اس کی تو بس ایک کی ڈیمانڈ ہے۔ اور تو کوئی نہیں ۔ یو ں تم بھی جی لو گی ۔ اوربھی جی اْٹھے گا۔ غور کر و ۔ تم سمجھ دار ہو ۔ تم ہا ں کرتی ہو تو میں اس کے طلا ق کے کاغذات بنو ا کر رشتہ ڈالتی ہوں ۔
من کے صحرا میں مزید سناٹا اور گھپ اندھیرا ہو گیا۔
اک سہمی ہوئی بچی مجھ سے پو چھ رہی تھی ۔ میں کیا کروں ؟
’’دل کیا کہتا ہے،، بولی ’’ڈرتاہے،،
آنٹی سے کہہ دو
’’ پری کا مذکر نہیں ہو تا ۔نا ہی وہ اس دنیا کی مخلوق ہیں،،
اور اپنے من کی سنو ۔اس سے زیادہ سچ کوئی حصہ نہیں بولتا۔
وہ معصوم بچی پری بن کر اڑ گئی ۔بہار کے جھونکے نے انگڑائی لی اور سفر پہ چل دیا ۔ مگر ایک پری کی تصویر سے من کے صحرا میں پھرسناٹا ہو گیا۔
لیکن بدھسواکونروان مل گیا تھا۔