روح کا سفر

آسما نی پردوں پر ، رائل بلیو لہروں میں ، سفید پتو ں کی باتیں ، جب نیلے بیڈ پہ بچھے ریشمی رائل بلیوبستر کے مو تیا پھو لو ں سے ہوتیں تووہ الما ری کے قریب بچھی آسما نی رگ پہ آ بیٹھتی ، اور بلیو کْشن سے ٹیک لگا کر ان کی چھیر چھاڑ سْنتی اور دیکھتی رہتی۔ یہ سب با ظاہر بے جا ن ہیں ، مگر زندہ بھی ہیں ۔
وہ حیرت سے سوچتی۔
سنسناتی سردیا ں اپنے عروج پر تھیں ۔ نیلے کمرے کی ہلکی نیلی روشنی میں اپنی الما ری کے قریب رکھی اکلو تی کرسی پر بیٹھے اس نے شال کو اپنے گر د لپیٹا ، جس کا پلو کرسی کے بازو سے نیچے لٹک رہا تھا ، اور ٹانگیں بیڈ کی طرف پھیلا کر کرسی سے ٹیک لگا ئے سامنے دیوار پر لگے فریم اور شیشیوں کونم نم آنکھو ں سے اس مدھم سی روشنی میں دیکھنے لگے۔
رات تاریکی سے نو رِ اور پھرحیرت و طلسم میں بدل رہی تھی ۔ تخیل تخلیق کی آغوش میں سما رہا تھا۔
منزلِ دل سے بند راستے آساں نکلے
سارے مدحا میر ے رات کے مہما ں نکلے
وہ بھی آیا تو فقط فن سے بند تک آیا
جس کے قدمو ں کے نشاں دل پہ فیروزاں نکلے
میں زمیں دعوے و فاؤں کے سہا کرتی تھی
سارے گردوں کی طرح مجھ سے گریزاں نکلے
روح میں بے سروسا ما نی محبت کی ہے
جب بھی نکلے تو ہو س کے سروسا ما ں نکلے
ہم تو با ہو ں کی پنا ہو ں کے تھے خواہا ں اے ربّاء
کیا کر یں با ہو ں کے حلقے سے جو زنداں نکلے
اس نے تا زہ غز ل لکھ کر ڈائری اپنے سرہا نے رکھ دی ، بہت دنو ں بعد کو ئی غز ل ہو ئی تھی اور بہت دنو ں بعد اس کی روح کو قرار آیا تو اس کا بدن ہلکا پھلکا ہو ا۔ جیسے کسی جبلت کے بعد سکو ن قْرب و پر نم ہو اکر تا ہے۔
پا س ہی رکھے میز پر ، موبائل کی دھڑکن نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
’’ اْف نیٹ آن رہ گیا‘‘


’’ اوہ ۔۔۔سات سمند ر پا ر سے سمندوں والے علم و حلم کا پیغام تھا ۔ جس کا اس کی اپنی ز مین پہ کو ئی ثانی بھی نہیں
اس نے میسج کے جواب میں فون ہی کر لیا
’’ ارے یہ با م پر کو ن اتر آیا ؟‘‘
وہی جو اس وقت کا ذب اتر سکتا ہے جنا ب‘‘
وہی نا ں ، علا متو ں میں با تیں کر نے والی۔۔۔‘‘
’ جی وہی ہو ں ‘‘
’’ اخترشما ری کے بعد کچھ نا ملا، کیا آسمان پر۔۔؟‘‘
’’ ابھی تک تو نہیں ۔۔۔ اور ہم سو ں کوملتا بھی کیا ، جو اختر شما ری کے لئے بھی آسمان کو چوری چوری دیکھتا ہو ۔۔‘‘
’’ کیسے ہیں رضا صاحب؟ اتنے دن بعد ۔۔۔۔؟ ۔۔۔میں نے کئی میسج چھوڑے ، مگرلا حاصل ۔۔۔ پھر سمجھ گئی ، کسی کشف کے دائرے میں محو ہو نگے۔۔۔کسی الہام کے منتظر۔۔۔‘‘
’’صیح سمجھیں تم ۔۔۔ یہ تین مہینے بڑے تسخیری ، قلبی و آسما نی ہو تے ہیں۔ مکا ن و لا مکا ن کے دائروں سے ما ورا ۔۔۔۔ بس پھر ہم جیسے نکل پڑتے ہیں ۔’ آہ۔۔۔، مگر واپسی پر اس دنیا داری سے تھکنے لگتے ہیں ۔ ۔۔۔ اکتانے لگتے ہیں ‘‘
’’ یہ بتا ؤ تمہا ری ذہا نت نے کیا دیا تم کو ؟‘‘
’’ ہے ہی نہیں ، ہو تی تو دیتی‘‘
’’ ہے۔۔۔ میں جا نتا ہو ں ۔۔‘‘
’’اذیت۔۔‘‘
’’آہ ساحرہ۔۔۔مجھے تو اذیت بھی نہیں ملی۔۔ صرف حیرا نی ملی ۔۔۔ وہ بھی سستے داموں ۔۔۔‘‘
’’ آپ عورت جو نہیں ،اذیت کیسے ملتی؟‘‘
’’ چوٹ اچھی لگا لیتی ہو، سنو ۔۔ فلسفی ۔۔ہو نا عورت ہو نے سے زیا دہ حساس ہے۔۔ سمجھو تو ۔۔‘‘
’’اور اگر فلسفی اور عورت جْفت ہو ں تو ۔۔۔۔حساسیت اور اذیت یک جاں یک روح ہو ں تو؟
’’ تم بھی نا ں ۔۔۔ میری طرح بس ایسے ہی ہو ۔۔ خیر میں بیوقوف ہو ں، ذہا نت اسی پر منتج ہو تی ہے‘‘
’’ میں کچھ بھی نہیں ہو ں ۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔ ‘‘
’’یہ شائبہ ذات ہے۔۔۔ تم ’ لا ، کی تلا ش میں ہو ۔۔۔ اور۔۔۔ اور ’لا ، ہی سہا را دے سکتا ہے۔۔۔‘‘
’’آہ رضا صاحب۔۔۔ ہو نا ، نا ہو نا ، کیسی دلفریب سی با ت ہے نا ں ۔۔ مسٹری ہے تو دلفریب مگر اس میں فریب زیا دہ ہے‘‘
’’ مگر۔۔۔ فریب کے ختم ہو نے کی د عا کے ساتھ مجھے دنیا با قی رہتی نظر نہیں آتی‘‘
’’ آپ کہہ سکتے ہیں ، فلسفی جو ٹھہرے۔۔۔میں عام انسان ہو ں۔۔عام۔۔ باکل عام۔۔‘‘
’’ شعور سے نکلی ہو ۔۔شاعری کر تی ہو۔۔۔ پھر بھی عام۔۔۔؟‘‘
’’ جی پھر بھی عام۔۔۔‘‘
’’ یہ بتا ؤ ۔۔ کیا ۔۔ ایک سے زیا دہ محبتیں معتبر ہو سکتی ہیں ؟‘‘
’’ ہو سکتی ہیں‘‘
’’ دلیل ہے؟‘‘
’’انسان کے لئے کو ئی دلیل ہے۔۔؟ جو میں محبتوں کے معتبر ہو نے کے لئے لا ؤں؟‘‘
’’ تم نے کبھی محبت کی؟
’’ جی ۔۔۔ انسان ہو ں ناں۔۔۔ وہی گندے خون سے بنا ۔۔ لتھری مٹی کی پیداوار۔۔‘‘
’’ تو پھر تنہا کیو ں ہو ۔۔؟‘‘
’’ محبت تنہا ئی ہی ہے۔۔۔سودے با زی ہو تی تو جدائی نا ہو تی، ہجر نا ہو تا۔۔‘‘
’’ یہ تو عشق ہو ا۔۔۔ محبت سے اوپر اٹھ گئیں۔۔‘‘
’’ نہیں ۔۔۔ مرد ہے ۔۔ بڑی عجیب مخلو ق ہے ۔۔جسے خود چاہتا ہے ۔۔اس کے لئے نہریں نکال لیتا ہے۔۔۔کوئی اس کو چاہ لے تو خود کو خدا بنا بیٹھتا ہے۔۔ اور ۔۔اور۔۔‘‘
’’ اور کیا۔۔۔‘‘
’’ در بدر کر دیتا ۔۔چاہنے والے کو۔۔۔ کہ ۔۔۔اسے سجدوں سے سرور ملتا رہے۔۔۔اور ۔۔ دوسرا بندگی کرتا رہے۔۔۔‘‘
’’ پھر ہو ا کیا؟‘‘
’’ کیا ہو نا تھا۔۔۔ میں مقام حیرت سے ہو تے ہوئے بے ثبا تی اور پھر لا مکا ں سے اوپر چلتی چلی گئی۔۔۔چلتی چلی ۔۔گئی۔۔۔‘‘
’’ تم نے اسے سزائے مو ت تو نہیں دے دی تھی ، ۔۔ احساس کے پھا نسی گھاٹ پر۔۔۔؟‘‘
’’ نہیں ۔۔۔ لا شعور نے دے دی ہو تو علم نہیں۔۔۔‘‘
’’ کتنا بد نصیب ہو گا ۔۔۔۔،تم کو کو ن چھوڑ سکتا ہے۔۔ تم کو۔۔ ،؟‘‘
’’انّا۔۔۔ خوف۔۔۔،میلا پن‘‘
’’ میلا پن۔۔؟‘‘
’’ اس کی بھی کئی اقسام ہیں ۔۔۔ مگر چھوڑئے۔۔۔ ویسے دنیا کہتی ہے وہ’ خوش نصیب ترین ، ہو گا۔۔۔؟‘‘
’’میٹھے پانی کا چشمہ اس کی اور بہتا رہا ۔۔ اور ۔۔۔وہ ۔۔بندگی سے شانت ہو گیا۔۔۔وہ پیا سا ہی لو ٹ گیا ۔۔۔، بیک وقت نصیبو ں کی کشتی ڈولی۔۔۔‘‘
’’ بد نصیب بد نصیبو ں سے ہی ملا کرتے ہیں شاید۔۔۔‘‘
’’مطلب۔۔؟‘‘
’’ جس نے اپنے ربّ سے نا دا نی میں اک دعا ما نگ لی ہو۔۔؟‘‘
’’ وہ کیا ۔۔ْ‘‘
’’ کہ مجھے جسم و روح کی آز ما ئش میں نا ڈالنا ۔۔۔شاید ۔۔ وہا ں جسم نا ہو ۔۔ شاید وہا ں روح نا ہو۔۔۔‘‘
’’تم اس کا کیا مطلب لیتی ہو؟‘‘
’’ روح جسم میں سرایت کئے ہو نا ں۔۔ تو۔۔۔ دل اور جسم کا رستہ آسان ہو جا تاہے۔۔‘‘
’’ مطلب ۔۔۔ تمہا را خیال ہے روح ، دل اور جسم سے الگ کو شے نہیں ہے؟‘‘
رضا صاحب نے معصوم سی دھیمی مسکراہٹ میں ، اشتیاق سے پو چھا
’’ جی دل اور جسم کا تعلق ہو سکتا ہے۔۔۔ روح اس سے با لا ہے۔۔ الگ ہے۔۔ اس کو فنا نہیں ۔۔۔ تعلق دل کا ہو تو جسم آسانی سے ساتھی بن جا تا ہے۔ مگر روح نہیں بنتی۔ تعلق روح کا ہو تو دل اور جسم بندگی میں آ جا تے ہیں۔ جسم اور دل کا سنجو ک اگر گہرا ہو تو بھی بعض اوقات روح پیا سی رہ جا تی ہے۔ میرے لئے روح کا شانت ہو نا ضروری ہے۔۔ ‘‘
روح سے ہی کا ئنا ت کا نظام جو ہو ا۔۔۔ محبت اپنی ذات میں خود روحا نی چیز ہے۔۔۔ اگر سمجھا جائے تو۔۔۔‘‘
’’ اپنا اور اللہ کا اک راز کھو ل دوں؟‘‘
’’ تم پہ ہے ۔۔۔‘‘
’’ کعبہ کا طواف کر تی ہو ں برسوں سے۔۔ بچپن سے۔۔۔ کسی کے لئے روتی ہو ں تو بھیگ کر طواف کر تی ہو بر س پڑتا ہے آسمان۔۔ کسی کو یاد کرتی ہو ں تو ۔۔۔ برس پر تا ہے آسما ن ۔۔۔ ہر با ر کوئی کہتا ہے ۔۔۔ اب مدینے کا سفر ہے۔۔۔ اور۔۔ پھر۔۔۔‘‘
’’ خواہش میں بہت طا قت ہے، بلکہ روح ہے۔۔۔ روح ۔۔۔ اس کے اختیا ر میں تھا ۔۔ چاہتا تو منٹ نا لگاتا ۔۔ سارے بْت توڑ دیتا۔۔۔ سارے کے سارے۔۔۔ مگر اس نے اپنے گھر کے صنم خانے کو ۔۔ بتو ں سے پا ک نا کیا۔۔ خود نا کیا۔۔۔ خود اکیلا ہے ۔۔یہا ں غرور کی چادر والا۔۔۔ ‘‘
’’ مطلب۔۔۔؟‘‘
’’ وہ مدینے کی زمین ۔۔۔ صنم خانے کو پاک کرنے والا ہے۔۔ نا ں۔۔ اکیلا نہیں ۔۔ہے ۔۔۔ یار غار کے ساتھ رہتا ہے وہا ں۔۔۔ دعا والے دلیر کے ساتھ ہے وہاں ۔۔۔ وہا ں ۔۔۔ وہا ں کے رستے آسان ہیں۔۔۔ جس روز ۔۔۔وہا ں کا سفر ہو گیا۔۔۔ سمجھو ۔۔ بندگی ہو گئی۔۔۔ طشت کے طشت ملیں گے۔۔۔ اس کے دربار کی شان والے۔۔انتظار ۔۔۔ ہے ابھی۔۔۔ تھوڑا انتظار۔۔‘‘
’’ میں اس قابل کہا ں؟‘‘
’’ تم کس قابل ہو۔۔۔ یہ فیصلہ اگر تم نے کر نا ہو تا تو خدا کہا ں جا تا؟۔۔ ‘‘
’’ خدا کہا ں جا تا۔۔۔ واہ۔۔۔‘‘
’’ تمہا رے رنگو ں میں روح با قی ہے یا نہیں۔۔۔؟‘‘
’’ ابھی ہے۔۔ابھی رنگ با تیں کرتے ہیں ۔۔۔ ابھی ان سے خوشبو آتی ہے۔۔ ابھی کمرے میں مہک آتی ہے۔۔۔ ابھی بھی کو ئی چھو ٹی تاروں سے کڑھی شال شانو ں پہ دے کر، آسما ن پہ آئے بادلو ں کو التجا سے دیکھتا ہے۔۔۔ابھی ۔۔ بھی۔۔۔‘‘
’’ امید سے بڑی کا ئنا ت کو ئی نہیں۔۔ اور گما ن سے بڑا انعام کو ئی نہیں ۔ ۔۔‘‘
’’ مگر ’لا ، سے شروع ہو نے والا ہا ر جا تا ہے۔۔‘‘
’’ تمہا را ’لا ، کہا ں سے شروع ہو تا ہے؟‘‘
’’ انا الحق تو ایک صدی بعد حق ہو گیا تھا۔۔۔ مگر۔۔۔۔ صدیاں بیت گئیں ۔۔ بیٹی کی پیدائش کے ’لا ، کا حق کہا ں ہے؟‘‘
’’ اول تو یہ کہ۔۔۔ ’ہا ں، میں بھی ’ لا ، ہی ہے۔۔ ، آغاز کا ’لا ، و ’ ہا ں، انجام ایک ہی رکھتا ہے۔۔ دوم صدیوں پہلے ’لا، اور ’ مرد، ایک ہی تھا ۔ آج بھی یہ مو جو د ہے۔۔۔ ‘‘
’’ کیسے؟۔۔۔ کہا ں۔۔؟‘‘
’’ حویلی میں چاند پیدا ہو نے پہ نا چ ہو تا ہے۔۔۔ اور شاہی محلے میں چاندی کی آمد پہ نا چا جاتا ہے۔۔۔۔ فرق۔۔ سمجھو۔۔ حویلی کی وراثت کا ۔۔ اور شاہی محلے کی واثت کا۔۔۔ بس ۔۔۔تفریق کچھ اور ہے۔۔۔‘‘
’’ فلسفی ہیں ناں۔۔ گہرے پا نیو ں میں پھنک دیا ہے مجھے۔۔۔‘‘
’’ عالم بھی تو ہو ں، نکا ل بھی دونگا۔۔۔‘‘
’’ دنیا کا عالم تمہارے سامنے ہے۔۔۔ تمہا را دل نہیں کرتا کہ ۔۔قسمت کا ستا رہ آسما ن پہ چمکے۔۔ محبو ب قدمو ں میں ہو۔۔۔ دولت خادمہ ہو ۔۔۔ کبھی کوئی وظیفہ کیو ں نہیں پو چھتیں ؟‘‘
’’آپ ہی تو کہتے ہیں ، دعا کی قبو لیت کی طرح تعلقات کی درخشندگی کا بھی ایک مخصوص وقت ہو تا ہے۔۔ اور پھر۔۔۔ جو دل میں ہو اسے قدمو ں میں لا کر کیا کروں گی۔۔ دل سے بھی جائے گا‘‘
’’ واللہ۔۔۔، کو ئی یو ں نہیں سوچتا۔۔۔اچھا میری عبا دت کا وقت ہو رہا ہے ، چلتا ہوں۔۔۔‘‘
’’ میں آپ کے رواں دائروں کی گردش میں کو ی کنکر پھینک کر انہیں منتشر کر کے۔۔، نئے رستے نہیں دینا چاہتی ہو ں۔۔۔ بلکہ چاہتی ہو ں جب ان دائروں کی پرواز معراج ہو تو میں بھی شامل دعا رہو ں۔۔۔‘‘
’’ تم ایسی باتیں کیو ں کر تی ہو؟‘‘
’’ بیس سال کی عمر میں نظر آنے والا وقت، چالیس برس میں تلا ش بن جا تا ہے۔۔۔ ساٹھ میں وہی وقت چپ سے دھیرے دھیرے چْھپنے لگتا ہے ۔۔۔۔ میرے زما ن و مکا ن کے سفر سے آپ ہی تو آشنا ہیں ‘‘
’’ تو سنو ۔۔۔ جب روشنی دیکھو گی ، ستارے زمیں پہ دکھائی دیں تو ،سمجھ جا نا کملی والے کے صحن رحمت میں چلی جا و گی۔۔فی امن اللہ۔۔۔‘‘
اسے رضا صاحب کی یہ با ت سمجھ نہیں آئی۔ مگر یو ں محسوس ہو ا جیسے بہا ر کی نرم و مہکتی ہو ائیں اس کے گر د گردش کر رہی ہیں ۔ وہ سوچوں کے سمندر میں واپس چلی گئی روح کی خوراک مل چکی تھی نیند نے پر پھیلا لئے۔
صبح آنکھ کھلی تو وہ کملی والے کے صحن چمن سے ہو آئی تھی ۔ اپنے وجود پہ نا زاں مسکراہٹوں کے پھو ل اندر با ہر کھل اٹھے تھے۔ سورج اپنی پو ری شان سے جلو ہ گر ہو چکا تھا ۔ جسم پہ شبنمی ہو اؤں کا رقص جا ری تھا۔ کہ فون قوس و قزاح کے رنگو ں سے مسکرا اٹھا ۔۔۔
اس نے دیکھا تو مسکرا ئیuff one day boy
’’ جی تو آپ سے مل سکتا ہو ں؟ کیا سوچا۔۔۔ آپ نے۔۔۔ بہت دور سے آیا ہو ، آپ کے شہر؟‘‘
’’ پا گل کہیں کا۔۔۔ ۔۔‘‘اس نے دل میں سوچا۔۔
’’ ممکن نہیں میرے لئے۔۔۔ سوری۔۔‘‘
’’ تے فیر میں نا سمجھاں۔۔‘‘
’’ جی ۔۔ صیح سمجھے۔۔‘‘
وہ اچانک اپنی ہی سوچ سے کا نپ گئی’’ لا کن کی کنجی ہے‘‘
اور فو ن بند کر دیا۔ ای میل چیک کر نے لگی۔ بینک سے آئی ای میل بتا رہی تھی۔کہ آج جا نا بہت ضروری ہے۔ اس نے الماری سے کپڑے نکالے اور بیڈ پہ رکھ کر واش روم چلی گئی۔ تیا ر ہو ئی تو خیا ل آیا کہ دور سے آئے کو بھی دس منٹ دئے جا سکتے ہیں ۔ اس نے اسے فون کر کے بینک کے سامنے والے پارک میں بلا لیا ۔
بینک کا کا م کر کے جب وہ سامنے پا رک کی طرف گئی تو وہ سامنے والے گیٹ سے آرہا تھا ،دونو ں پا رک سے عین وسط میں ملے تو ایک دوسرے کو حیرانی میں دیکھتے رہ گئے۔ تصویروں کی دنیا سے قدرت کا حسن کتنا ماند پڑ جاتا ہے نا ۔۔۔
اسے دیکھ کر وہ ایک لمحے تو ساکت ہو گئی۔۔۔
اْدھر بھی حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔
اِس کی خواہش کے ،جسم کے، روح کے رنگ قدرت کے رنگو ں میں مل رہے تھے۔
اس نے خود سے مکالمہ کیا
’’ نہیں ۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ ۔۔۔ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔‘‘
مگر روح ، جسم اور دل تو یہی کہہ رہے تھے
’’ کیا ہو ا؟‘‘
اْس کی آواز سے زندگی میں پہلی با ر جسم میں لی گئی انگڑائی میں جیسے آگ لگ گئی ہو۔۔۔
وہ اپنی خواہش سے خود آنکھیں چڑانے لگی۔
ہلکے پھلکے سے بادل جو اچانک آئے تھے اچانک برسنے لگے ۔ دونو ں بے اختیار سامنے پیڑ کے نیچے آگئے۔ اس نے دیکھا بارش کی بو چھاڑ ، اس کی طرف ہے تو وہ اس کے دائیں جانب جا کھڑا ہو ا ،۔۔۔اس کی روح ، جسم اور دل بندگی کے سکو ن میں سر بسجود تھے۔اور اوے ستاروں کی مانند چمک رہے تھے۔
اسے رضا صاحب کی بات یا د آگئی
’’ جب ستارے زمیں پہ دکھائی دیں تو،سمجھ جا نا کملی والے کے صحن رحمت میں آ گئی ہو ۔۔۔ ‘‘
بارش تیز ہو تی جا رہی تھی ۔اولوں نے سبز زمین کو اپنے وجودسے سفید کر دیا تھا۔