نرمل نیر

ادھر ادھرجل تھا۔ جل ہی جل۔ پوتر جھرجھرگرتا۔
وہ جو مدمتا تھی‘مدماتی‘مدن مد۔
وہ ا سی جل میں اشنان کرتی‘ چھینٹے اڑاتی‘ دوڑتی پھرتی تھی۔
ا س جل کے بیچوں بیچ وہ جتنا آگے جاتی اتنا ہی جل اور بڑھ جاتا۔
وہ تھی۔ بس وہ۔ اورجل۔
ایک بگھی اس کے واسطے تھی‘ رنس سے بنی ہوئی‘ جگرجگر کرتی۔
جس کی راہ میں کوئی وگھن نہ تھی
اس کے آگے بارہ بدلیاں جتی ہوئی تھیں۔
بدلیاں بھی ایسی‘ کہ جن کے پاؤں میں بجلیاں بھری ہوئی تھیں‘ ہر دم‘ تازہ دم۔
لگامیں ا س کے ہاتھ میں تھیں ۔
وہ اس جل کے اوپر اس بگھی کو دوڑاتی پھرتی تھی۔ قہقہے لگاتی یا پھر ہنس ہنس کر دوہری ہوہو جاتی۔
ایسے میں اس کا سندر بدن اورسندر ہو جاتا۔
تارے جھل مل کرتے ساری کرنیں اس پر نچھاور کردیتے۔
اور لہریں اچھل اچھل کر اس کاا نگ انگ چومنے لگتیں۔
تب وہ شانت ہو جاتی۔
کہ ‘ وہ تھی ا ورجل تھا۔
جل تھا اور وہ تھی۔
ایک روز کہ وہ اپنے جوبن میں مست تھی۔
ایک کنّی اس پر اتری۔
اتری اور قطرہ بن گئی۔
قطرہ بن گئی اور ٹھہرگئی۔
پوری طریوں ٹھہری بھی نہ تھی‘ وہیں لرزتی جاتی تھی۔
اور عین اس کے بیچ ایک رنس سمٹی ہوئی تھی جو‘ من کے بیچ کھبتی تھی۔
اس نے اپنے تئیں سوچا۔
کہ وہ تو اس سنمانی کنّی کے سمان ہے قطرہ بننے والی‘ رنس سمیٹے ہوئے۔
تب اسی طرح کی ایک اورکنّی اوپر سے برسی ۔
وہیں پہلی کے آلے دوالے۔
دونوں ایک دوسرے کے اور کھسکیں اور مل گئیں۔
دو سے ایک ہوئیں۔
سنجوگ کیا ہوا‘ دونوں جوا ب ایک ہو گئی تھیں‘ اپنے جوبن پر آگئیں۔
وہ جل میں یوں ملیں کہ جل ان کی چھب میں چھپ گیا۔
یہ جل اب سارے میں لہروں کی طرح اچھلنے لگاتھا۔
اس نے جانا یہ سارا جل جو پہلے جھرجھر گرتاتھا؛ اور اب ادھر ادھر شوکتا پھرتا ہے‘دوبوندوں کے سنجوگ کے سمان ہے۔
دوبوندیں ‘ جو پہلے دو کنّیاں تھیں ۔ اور اب جل ہی جل تھا‘ شوکتا‘شور مچاتا‘اچھلتا کودتا۔
تب اس کے بریتس سے شانت نے شما چاہی۔
اور عجب طرح کی جوالا بھڑکنے لگی۔
اسے اپنی سرت نہ رہی۔
وہ شانتی جو اس کی دھروٹ تھی‘دو بوندوں کے کارن لٹ گئی تھی
وہ سوچتی:
ایک کنّی جو بوندبنی ‘ وہ تو وہ خود تھی مگر دوسری ؟
پھر اسے چنتا ہوئی:
وہ سمندر کے سمان کیسے ہو سکے گی؟۔۔۔ کیسے؟؟۔۔۔کیسے؟؟؟
یہ جل جو کبھی اسے مدھو لگتا تھا۔
اب اگنی بن کر اسے جلاتا تھا۔
اس کے اندر سے ساری للک نچڑ گئی۔
ایک کلپنا تھی جو اسے کلپاتی تھی۔
ایک ہی چت تھی جس میں وہ اپنی بدھ کھو بیٹھی تھی۔
اس کی بڑھوتری اسی جل میں ہوئی تھی۔
مگر اب اسے لگتاتھا ‘وہ اور تھی اورجل اور۔
یہ کیسا یدھ تھا جو اس کے اندر ہو رہا تھا۔
اس نے لہروں کے ساز پر مدھارت کو چھیڑا ۔
یہ سر پہلے اسے شانت کرتا تھا ‘اب تڑپانے لگا۔
عین اس سمے اس نے اوپر سے نیچے جھانک لیا۔
نیچے‘ بہت نیچے ‘ڈابھ کے اندر‘ ڈابک کی چمک تھی‘یوں کہ جھلک پڑنے پر آنکھیں چندھیاتی تھی۔
اس نے جانا‘پرنتو ‘ وہ ڈابک نہیں‘اک کنّی ہے دوسری کنی۔ قطرہ بنے اس کی منتظر ۔
اس نے اپنی بگھی کی لگامیں اس اور موڑ لیں۔
اور دھرتی پر اتر آئی۔
ڈابک میں مل جانا تو اس کے مقدّر میں نہ لکھا تھا‘من میں جا اتری۔
اور آنکھوں میں جا سمائی۔
اور اب قطرہ قطرہ دامن بھگوتی رہتی ہے۔