نکل پڑے ہیں صنم رات کے شوالے سے
نکل پڑے ہیں صنم رات کے شوالے سے
کچھ آج شہر غریباں میں ہیں اجالے سے
چلو پلٹ بھی چلیں اپنے مے کدہ کی طرف
یہ آ گئے کس اندھیرے میں ہم اجالے سے
خدا کرے کہ بکھر جائیں میرے شانوں پر
سنور رہے ہیں یہ بادل جو کالے کالے سے
بتوں کی خلوت رنگیں میں بزم انجم میں
کہاں کہاں نہ گئے ہم ترے حوالے سے
جنوں کی وادئ آزاد میں طلب کر لو
نکال لو ہمیں شام و سحر کے ہالے سے
حیات عصر مجھے پھیر دے مرا ماضی
حسین تھا وہ اندھیرا ترے اجالے سے
کوئی منائے تو کیسے منائے دل کو شمیمؔ
یہ بات پوچھئے اک روٹھ جانے والے سے