نگاہ باغباں کچھ مہرباں معلوم ہوتی ہے
نگاہ باغباں کچھ مہرباں معلوم ہوتی ہے
زمیں پر آج شاخ آشیاں معلوم ہوتی ہے
بلایا جا رہا ہے جانب دار و رسن ہم کو
مقدر میں حیات جاوداں معلوم ہوتی ہے
نگاہوں میں ہیں کس کے عارض گل رنگ کے جلوے
کہ دنیا گلستاں در گلستاں معلوم ہوتی ہے
مری کشتی کو شکوہ بحر بے پایاں کی تنگی کا
تجھے ایک آب جو بھی بے کراں معلوم ہوتی ہے
پہنچ کر آسماں پر بھی تو دیکھو اے زمیں والو
وہاں سے یہ زمیں بھی آسماں معلوم ہوتی ہے