نظیر میری نظر میں


نظیر کے غیرمطبوعہ کلیات کی ورق گردانی کر رہا تھا اور سوچتا جاتا تھا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ نظیر کس قسم کا شاعر تھا تو میں کیا جواب دے سکتا ہوں۔ اس کی غزلیں پڑھئے تو فوراً میرؔو سوزؔ کی طرف خیال منتقل ہوتا ہے۔ پھر بھی وہ میرؔ و سوز سے بالکل علیحدہ نہیں۔ الغرض میں اسی خیال کو لئے ہوئے جستہ جستہ اس کے اشعار دیکھتا جاتا تھا کہ دفعتاً اس کے اس مطلع پر نگاہ پڑی۔لا کر ہر اک ادا میں وہ عیار چٹکلاچٹکی بجا کے چھوڑے ہے ہر بار چٹکلااس وقت تک مجموعی حیثیت سے جو اثر نظیر کی شاعری کا میرے دماغ پر پڑا تھا، اس نے مجھے اس شعر کی طرف زیادہ متوجہ کر دیا اور میں کچھ ایسا محسوس کرنے لگا کہ کہیں نظیر اسی قسم کا شاعر تو نہیں کہ، چٹکی بجا کے چھوڑے ہے ہر بار چٹکلا۔ اور جب مقطع میری نگاہ سے گزرا تو میرا خیال اور زیادہ مستحکم ہو گیا۔ وہ مقطع آپ بھی سن لیجئے،سب جانتے ہیں چٹکلے بازی نظیر کیاس کے تو ہر سخن میں ہے اے یار چٹکلااگر آپ نے نظیر کے تمام اصناف سخن کا مطالعہ کیا ہے تو میری طرح غالباً آپ کو بھی یہ بات محسوس ہوئی ہوگی کہ اس کا کوئی کلام ایسا نہیں جس میں کوئی ’’چھل بل‘‘ نہ ہو، کوئی ’’انوٹ‘‘ نہ پائی جائے اور ایک قسم کی ’’اینڈ‘‘ موجود نہ ہو۔ لیکن ان سب کے ملنے کے بعد جو چیز بنتی ہے اسے کس لفظ سے تعبیرکر سکتے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہ آتی تھی جسے نظیرؔ کے مقطع نے سمجھا دیا کہ اسے ’’چٹکلے بازی‘‘ کہتے ہیں اور نظیرؔ ایک ’’چٹکلے باز‘‘ شاعر تھا۔ لیکن چٹکلے باز‘‘ کسے کہتے ہیں، یہ بات بجائے خود ذرا تشریح طلب ہے۔’’چٹکلے باز‘‘ ہماری سوسائٹی کا وہ انسان ہے، (سو سائٹی سے علیحدہ اس کا کوئی مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا) جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک، غریبوں سے لے کر امیروں تک، ہر عمر و طبقہ کی محفل میں اپنی جگہ پیدا کر لیتا ہے جو کبھی ’’بار خاطر‘‘ نہیں بلکہ ہمیشہ ’’یار شاطر‘‘ ثابت ہوتا ہے اور جس کی ہستی تکلف و تصنع سے بالکل پاک ہوتی ہے۔ اس کی زندگی کا رجائی Optermistic پہلو ہمیشہ نمایا ں رہتا ہے اور وہ خود ہنسے یا نہ ہنسے لیکن دوسروں کو ہنسا نے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ وہ ایک ایسا مرنجاں مرنج، ا ہلا گہلا، کھلنڈرا، اور چونچال لیکن بے ضرر انسان ہوتا ہے کہ وہ ہر شخص سے محبت کرنا چاہتا ہے اور ہر شخص اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ وہ مرد مرتاض بننے کا دعویٰ کبھی نہیں کرتا۔ وہ مذہب کی تنگ نظری سے ہمیشہ علیحدہ رہتا ہے اورایک نہایت دلچسپ قسم کا ’’رند‘‘ ہے جو دنیا کو دوسروں کی نگاہوں سے دیکھنے کا زیادہ شائق ہوتا ہے اورا پنے آپ کو سوسائٹی کے اندرجذب کر کے اپنی انفرادیت کو بھی اجتماعی چیز بنا دیتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ گھل مل کر زندگی بسر کرنا اس کا نصب العین ہوتا ہے اور دل پر چوٹیں کھانے کے بعد بھی ہر وقت مسکراتے رہنا اس کا شعار۔اس کی رنگینی طبع اکتسابی نہیں بلکہ یکسر وہبی ہوتی ہے ا ور اسی لئے وہ کبھی موقع پر چوکتا نہیں اور ہونٹوں پر آئی ہوئی بات کو روکتا نہیں۔ بولی ٹھولی، ضلع جگت، پھبتی، فقرہ بازی، بذلہ سنجی میں مشاق ہوتا ہے اورمحفل کا جو رنگ ہوتا ہے اسی میں ڈوب جاتا ہے۔ اگر اس کے ہاتھ میں کبھی تسبیح ہوتی ہے تو کسی وقت اس کی کمر میں زنار بھی نظر آتی ہے۔ اگر ایک وقت وہ لمبی داڑھی کے ساتھ محراب میں دکھائی دیتا ہے تو دوسرے وقت ریشہ و برودت صاف، ارتھی کے ساتھ بھی نظر آتا ہے۔ وہ بچوں کے ساتھ مل کر کھیلتا ہے، جو انوں کی محفل میں شریک ہو کر حسن و عشق کی باتیں کرتا ہے اور بوڑھوں کی صحبت میں وعظ و نصیحت۔وہ دنیا کو ’’شیطان سے خدا کا انتقام‘‘ نہیں سمجھتا بلکہ ’’انسان پر احسان‘‘ سمجھ کر اس سے لطف حاصل کرنا چاہتا ہے اور ’’انسان‘‘ کا مطالعہ وہ ’’انسان کل‘‘ ہونے کی حیثیت سے کرتا ہے۔ وہ اختلاف مسلک و مشرب کو زندگی کا تنوع سمجھ کر اس سے دلچسپی لیتا ہے اور اس لئے وہ اذان کی آواز اور صدائے ناقو س دونوں سے محبت کرتا ہے۔ اس کی زندگی یکسر نغمہ و رقص ہے جس میں سوائے قہقہہ نشاط اور ہمہمہ زندہ دلی کے اور کچھ نہیں۔ یہاں تک کہ اس کی داستان عبرت و بصیرت بھی ایک ایسا گوار ا ور پر سکون اثر چھوڑ جاتی ہے کہ سننے والے کو موت بھی زندگی کا نیا تجربہ محسوس ہونے لگتی ہے۔یہ ہے میرے نزدیک ’’چٹکلے باز‘‘ کا مفہوم اور اگر آپ نے نظیرؔ کے کلام کا وسیع مطالعہ کیا ہے تو غالباً آپ بھی مجھ سے متفق ہوں گے کہ وہ واقعی چٹکلے باز ہو اور شاعر نہ ہو لیکن شاعر بھی ہو اور چٹکلے باز بھی، اس کے لئے چند باتوں کا پایا جانا لازم ہے۔ جزئیات کا مطالعہ تو بہر حال دونوں کے لئے ضروری ہے لیکن ایک شاعر کے لئے ’’آہنگ شعر‘‘ کا اس کے دماغ میں پہلے سے پایا جانا ناگزیر ہے۔ اس کے پاس الفاظ کا بھی بڑا ذخیرہ ہونا چاہئے اور مترادف الفاظ کے معانی میں جو ہلکے ہلکے فرق ہوتے ہیں، ان سے بھی اسے آگاہ ہونا چاہئے۔ اس میں موقع و محل کے لحاظ سے وضع الفاظ کا بھی مادہ ہونا چاہئے اور جذبات و اثر اندازی کے مقابلہ میں صنعت شعری سے مغلوب نہ ہونا۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ نظیرؔ میں یہ تمام خصوصیات بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں۔نظیر کی ہمہ گیریجزئیات کا مطالعہ اس کا اتنا وسیع ہے، کوہ سے لے کرپر کاہ تک کوئی چیز اس کی نگاہ سے نہیں چھوٹتی اور ’’آہنگ شعر‘‘ اتنا زبردست رکھتا ہے کہ ایک غیر متوازن چیز میں بھی وہ بلا کا توازن پیدا کر دیتا ہے۔ رہا الفاظ کا ذخیرہ، سو اس باب میں تو اردو کا کوئی شاعر اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ اور الفاظ کے گڑھنے میں جو ید طولیٰ اسے حاصل ہے اس میں نظیرؔ آپ اپنی نظیر ہے۔ اسی لئے اس کے یہاں وہ سب کچھ ہے جو دوسروں کے یہاں الگ الگ پایا جاتا ہے اور اس کی شاعری داخلی وخارجی دونوں حیثیتوں سے بڑی مکمل چیز ہے۔ شاعری کے سلسلہ میں نظیر کے یہاں کیا نہیں ہے۔ غزل، قصیدہ، رباعی، مثنوی، مسدس، ترجیع بند، مستزاد سبھی کچھ ہے اور ہر چیز اپنی جگہ لفظی و معنوی حیثیت سے ایک جڑا ہوا نگینہ نظر آتی ہے۔مباحث کے تنوع کے لحاظ سے اس کا کلیات ایک ایسا نایاب ذخیرہ ہے کہ زندگی کاکوئی پہلو، معیشت و معاشرت کا کوئی انداز اور احساسات و تاثرات کا کوئی منظر ایسا نہیں ہے جو اس میں موجود نہ ہو۔ امیر وغریب، شاہ و گدا، زاہد و رند، سنجیدہ و غیر سنجیدہ، ہندو و مسلمان، گبروترسا علیحدہ علیحدہ سب کی دلچسپی کا سامان اس میں موجود ہے اور عالم محسوسات کی شاید ہی کوئی چیز ایسی ہو جس کا ذکر کسی نہ کسی نہج سے نظیر نے نہ کیا ہو۔ مشاغل زندگی، ضروریات انسانی، مظاہر تمدن میں ’’سنجیدہ‘‘ اورہنسور‘‘ قسم کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے نظیر نے چھوڑ دیا ہو اور جس پرپورے اہتمام شاعرانہ کے ساتھ تمام ممکن صنائع و بدایع لئے ہوئے قلم نہ اٹھایا ہو۔ پھر لطف یہ ہے کہ نظیر کا کوئی رنگ سخن ایسا نہیں ہے جس میں واقعیت نہ پائی جاتی ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ اس کی زبان سے نکلتا ہے وہ اس کا تجربہ و مشاہدہ ہے اور اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظیر نے اپنی زندگی میں سبھی پاپڑ بیلے اور ہر رنگ و صحبت میں شریک ہو کر اس سے لطف اٹھایا۔ نظیر کی سیرت کے تفصیلی واقعات بہت کم بلکہ بالکل نہیں ملتے۔ لیکن اس کی زندگی کا اجمالی خاکہ ہم اس کے کلام سے بہ آسانی معلوم کر سکتے ہیں اس کا ایک غیرمطبوعہ مسدس ہے جس میں وہ اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ وہ زندگی میں کیا کیا کھیل کھیل چکا ہے۔ مثلاً،آگے بھی بھیس ہم نے بدلے ہیں کتنے باریزنار باندھا قشقا کھینچا ہے ہوے پجاریجوگی بھی بن چکے ہیں، مندیل بھی سنواریآزاد بن کے اس دم ہیں دید کے بھکاریاک دم کو آ گئے ہیں منہ مت چھپا لے ہم سےٹک ہنس کے اوپر ی رو آنکھیں لڑا لے ہم سےبانکے بھی ہو کے ہم نے اس دید کو اڑایاشمشیر اور سپر کواک عمر کھڑ کھڑایابانک و پٹا و بلم گتکا ولٹھ پھرایاجھمکا تمہارا اس دم ہم کو جو یاد آیااک دم کو آ گئے ہیں منہ مت چھپا لے ہم سےٹک ہنس کے اوپر ی رو آنکھیں لڑا لے ہم سےپھر کتنے روز ہم نے بچہ بئے کا پالااس جال میں بھی کتنے خوباں کو دیکھ ڈالاپنجرا، گلہری، توتا، شکرہ شکار والااب دیکھنے کو تیرے یہ سوانگ کر کے لالااک دم کو آ گئے ہیں منہ مت چھپالے ہم سےٹک ہنس کے اوپر ی رو آنکھیں لڑا لے ہم سےشیشہ میں مدتوں تک ہم نے پلنگ اتاراکتنے پری رخوں کو جا پیر نے میں ماراتصویریں بیچنا بھی کتنے دلوں بچارااب دیکھنے کو تیرے ہو کر فقیر یارااک دم کو آ گئے ہیں منہ مت چھپالے ہم سےٹک ہنس کے اوپر ی رو آنکھیں لڑا لے ہم سےکشتی میں ہم نے کتنی مدت بدن کو توڑاسو گل بدن کے تن کو من مانتا مروڑاجو ڈھب تھا اس ہنر کا کوئی نہ ہم نے چھوڑااب خوبروکا پیارے دنیا میں دیکھ توڑااک دم کو آ گئے ہیں منہ مت چھپالے ہم سےٹک ہنس کے اوپری رو آنکھیں لڑا لے ہم سےجوڑے کبوتروں کے پھر کتنے دن اڑائےکنکوے، چنگ، گڈی، تکل پتنگ بنائےکھٹ والے بن، ہزاروں چھاتی تلک لگائےہیں دید کے جودل میں لاکھوں مرے سمائےاک دم کو آ گئے ہیں منہ مت چھپالے ہم سےٹک ہنس کے اوپر ی رو آنکھیں لڑا لے ہم سےپھر لال بھی لڑائے اور گلد میں بھی پالیںجنگل میں گل لگائے اور پدڑیاں پھنسا لیںڈبوں میں ڈالی مکھی بل مکڑیاں بنا لیںکیا کیا نہ ہم نے پیارے بہرو پیاں بچالیںاک دم کو آ گئے ہیں منہ مت چھپالے ہم سےٹک ہنس کے اوپر ی رو آنکھیں لڑا لے ہم سےخرادی ہو کے ہم نے لٹو چکئے بنائےاس میں بھی کتنے لڑ کے خراد پر چڑھائےپھر ہو کے سرمہ والے سرمے بہت لگائےریچھوں تلک لڑائے بندر تلک نچائےاک دم کو آ گئے ہیں منہ مت چھپالے ہم سےٹک ہنس کے اوپری رو آنکھیں لڑا لے ہم سےاس طرح کا ایک مسدس اس کے مطبوعہ کلام میں بھی نظر آتا ہے، جس کی سرخی دید بازی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے شعرا کی طرح مہ ر خوں کے لئے اس نے صرف مصوری ہی نہیں سیکھی بلکہ اور بہت جتن کئے۔ یہاں تک کہ ریچھ اور بندر بھی نچایا، آم جامن کے ٹوکرے بھی سر پر اٹھا ئے، دال موٹھ اور پاپڑ کی بھی دوکان لگائی، الغرض بقول انہیں کے، ’’سو مکروفن بنانا سو رنگ وروپ بھرنا‘‘ ان کا شعار زندگی رہا۔ اگر ہم ان تمام بیانات کو شاعرانہ مبالغہ سے تعبیر کریں تو بھی اس سے یہ بات ثابت ہی ہوتی ہے کہ نظیر نے زندگی کے ہر رنگ کا نہایت گہرا مطالعہ کیا تھا اور ہر صحبت و مجلس میں شریک ہو کر اس نے خود ان تمام باتوں کا تجربہ حاصل کیا تھا جسے شعرا عام طور پر صرف سنی سنائی حیثیت سے ظاہر کرتے ہیں اور یہ وہ خصوصیت ہے جو نظیر کے علاوہ ہندوستان کے کسی شاعر کو نصیب نہیں ہوئی۔نظیرؔ طبقہ خواص کا بھی شاعر تھانظیرؔ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ طبقہ عوام کا شاعر تھا اور اسی لئے اس نے شاعرانہ اسقام و اغلاط کی پرواہ نہیں کی۔ مگر میری رائے میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ عامۃ الناس کا شاعر تھا اور اس میں کسی طبقہ کی تخصیص نہیں ہے، کیونکہ اس کے کلیات میں ہر طبقہ و جماعت کی دلچسپی کا سامان پایا جاتا ہے۔ وہ حضرات جنہو ں نے صرف اس کی سادگی بیان اور سیدھی سیدھی باتوں کو دیکھ کر اس کے ’’عوامی‘‘ شاعر ہونے پر حکم لگایا ہے، وہ غالباً یہ سن کر حیرت کریں گے کہ نظیر جب فارسی تراکیب اور لفظی شان و شوکت کا اہتمام کرتا ہے، تو وہ بالکل غالب و مومن بلکہ موجودہ زمانہ کا شاعر نظر آتا ہے۔ ایک غزل ملاحظہ ہو،جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھیتر ہے مژہ بھی اشک سے جیب کا تار تار بھیطرفہ فسوں سرشت ہے چشم کرشمہ سنج یارلیتی ہے اک نگاہ میں صبر بھی اور قرار بھیدیکھئے کیا ہو بے طرح دل کی لگے ہیں گھات میںعشوہ پر فریب بھی غمزہ سحر کار بھیزلف کو بھی ہے دم بدم عزم کمند افگنیدام لئے ہے مستعد طرۂ تابدار بھیچند اشعار اور مختلف غزلوں کے ملاحظہ ہوں،جس طرف تھے دیکھتے عیش وطرب کا جوش تھامستی و رندی ہوس بازی و بے اندیشگیقدم میں خم، آنکھوں میں نم، چہرہ پ جُھری، رنگ زردسر سے پا قد سخت ناخوش منظری، بد ہئیتیجس کے لب سے سخن پند گہر جوش ہوئےعمر بھر پھر وہ ہمارے گہر گوش ہوئےچاہت کے اب افشا کن اسرار تو ہم ہیںکیوں دل سے جھگڑتے ہو گنہگار تو ہم ہیںکیا کبک کو دکھلاتے ہو، انداز خرام آہحسرت زدہ شوخی رفتار تو ہم میںیہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اشعار اسی کے ہیں جو ’’کوڑی نہ ہو تو کوڑی کے پھرتین تین ہیں‘‘ پکارتا پھرتا ہے۔ ایک غزل اور ملاحظہ ہو۔ یہ بھی غیر مطبوعہ ہے۔اے صف مژگاں تکلف بر طرفدیکھتی کیا ہے الٹ دے صف کی صفدیکھ وہ گورا سا مکھڑا رشک سےپڑ گئے ہیں ماہ کے منہ پر کلفآ گیا جب بزم میں وہ شعلہ روشمع تو بس ہو گئی جل کر تلفساقی بھی یوں جام لے کر رہ گیاجس طرح تصویر ہو سا غر بکفان اشعار سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ نظیر طبقہ عوام ہی کا شاعر نہ تھا بلکہ طبقہ خواص کا بھی تھا۔ چشم کرشمہ سنج، عشوہ پر فریب، غمزۂ سحر کار، طرۂ تابدار، بےاندیشگی، نا خوش منظری، گہر جوش، حسرت زدہ، شوخی رفتار، فارسی کی وہ ترکیبیں ہیں جو فارسی کا نہایت بلند ذوق رکھنے والے شاعروں کے کلام میں پائی جا سکتی ہیں۔نظیرؔ تقریباً سو سال زندہ رہے اور 1246 ھ میں ان کا انتقال ہوا، یعنی جب ولی دکنی دربار دہلی پہنچے ہیں، اس وقت نظیر کی عمر سات آٹھ سال کی تھی، اور جب غالب جو ان تھے تو نظیر کی زندگی کے کم از کم پندرہ سال ضرور باقی تھے۔ اس لئے اگر نظیر کی شاعری کی ابتدا 20 سال سے مانی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے میرزا مظہر جان جاناں، حاتم، سوداؔ، میرؔ، سوزؔ، قائمؔ، حسرتؔ، رنگینؔ، شاہ نصیر، ممنونؔ، مومنؔ، غالبؔ، ذوقؔ، جرات، انشا، مصحفی اور ناسخ سب کا زمانہ دیکھا، جن میں سے کچھ اس سے قبل مر گئے، کچھ اس کے بعد بھی زندہ رہے اور اس لئے اگر اس کے کلام میں ہم وہ سب کچھ پائیں جو اس کے ہم عصر شعرا کے کلام میں پایا جاتا ہے تو تعجب نہ کرنا چاہئے۔ گو نظیر کا وہ انفرادی رنگ جس کا ذکر ہم آئندہ کریں گے ایسا تھا جس کی ہوا بھی ان کے ہم عصر شعرا میں سے کسی کو نہ لگی تھی۔ ذیل کے اشعار (جو اس کے غیر مطبوعہ کلیات سے لئے گئے ہیں) اس بات کا ثبوت ہیں کہ نظیر کا عہد ان سب شاعروں کا عہد تھا اور وہ بیک وقت متقدمین، متوسلین و متاخرین تمام شعرا کی صف میں جگہ پا سکتا ہے۔شرمندۂ رفو نہیں عاشق کا چاک جیبکس باغباں نے گل کا گریبا سلا دیاتمہاری زلف کا اے یار ہم سے بل نہ گیاہمارے دل سیتی اک بال بھر خلل نہ گیاہمیں ہیں دیکھ جو قدموں پہ گر بسے ہیں ترےوگر نہ یاں سے میاں ہاتھ کون مل نہ گیاجلا کے پر جو لگن میں پڑا سلگتا ہےپتنگ پہلے ہی خانہ خراب جل نہ گیابہار آئی، کیا ہر شاخ پر گل نے مکاں اپنابنا اب تو بھی اے بلبل، چمن میں آشیاں اپناابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوےکہ ہم کو راہ میں اک آشنا نے لوٹ لیاٹھہرنا عشق کے آفات کے صدموں میں نظیرؔکام مشکل تھا پر اللہ نے آسان کیاجس کام کو جہاں میں تو آیا تھا اے نظیرخانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیااس کے چہرہ پہ نہیں کا کل مشکیں کی نمودیہ پٹاری کے تئیں توڑ کے کالا نکلامٹ گئے شور و فغاں جی کے نکلتے ہی نظیرپھر نہ سینہ سے اٹھی آہ، نہ نالا نکلامیرا اور اس کا اختلاط ہو گیا مثل ابروبرقاس نے مجھے رلا دیا، میں نے اسے ہنسا دیاتیشہ کی کیا مجال تھی جو یہ تراشے بے ستوںتھا وہ تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیاسن کے ہمارا عرض حال یار نے یک بیک نظیرہنس کے کہا کہ بس جی بس تم نے تو سر پھرا دیاخط کے آنے پر بھی کافر مجھ کو ترساتا رہاجیسا شرماتا تھا جب ویسا ہی شرماتا ہاآہ کے، نالے کے، ٹھنڈی سانس کے یا اشک کےاب خدا جانے کہ کس کے ساتھ جی جاتا رہاآج دیکھ اس نے مری چاہ کی چتون یارومنہ سے گو کچھ نہ کہا دل میں تو جانا ہوگادیکھ لے اس چمن دہر کو دل بھر کے نظیرؔپھر ترا کا ہے کو اس باغ میں آنا ہوگاتمہارے ہاتھ سے کل ہم بھی رو لئے صاحبجگر کے داغ جو دھونے تھے دھو لئے صاحبکل اس صنم نے کہا دیکھ کر ہمیں خاموشکہ اب تو آپ بھی ٹک لب کو کھولئے صاحبیہ سن کے میں نے نظیر اس سے یوں کہا ہنس کرجو کوئی بولے تو البتہ بولئے صاحبکچھ اسے شرم، کچھ ہے ہم کو حجابیہ نئی چاہ میں یہ طرفہ عذابکیوں نہ عشرت دو چند ہو تو ملےیار مہ چہرہ اور شب مہتابکہیں بیٹھنے دے دل اب مجھے جو حواس ٹک میں بجا کروںنہیں تاب مجھ میں کہ جب تلک تو پھرے تو میں بھی پھرا کروںجو نگہ سے چاہ کے دیکھوں ٹک تو چڑھا کے تیوری کہتا ہےتری اس نگہ کی سزا ہے یہ کہ بس اب میں تجھ سے چھپا کروںمجھے مدتوں سے ہے در د دل جو کہا کچھ اس کا علاج کرتو کہا کہ اس کی دوا ہے یہ تو کہا کرے میں سنا کروںکوئی بولا تم نے نظیرؔ کو نہ جھڑک دیا تو کہا میاںدل و جاں سے مجھ پہ وہ ہے فدا، اسے کس طرح میں خفا کروںنہ دن کو چین نہ راتوں کو خواب آنکھوں میںبھر آ رہی ہے ترے غم سے آب آنکھوں میںجدھر وہ دیکھے ادھر صف کی صف الٹ ہی دےبھری ہے شوخ کے ایسی شراب آنکھوں میںتھما نہ اشک، نہ نیند آئی، نا پلک جھپکیبسا ہے جب سے وہ خانہ خراب آنکھوں میںشتابی آن کے محبوب پگڑیاں رنگ لونظیرؔ لایا ہے بھر کر شہاب آنکھوں میںجام نہ رکھ ساقیا، شب ہے پڑی اور بھیپہروں جہاں کٹ گئے چار گھڑی اوربھیپہلے ہی ساغر میں تھے ہم توپڑے لوٹتےاتنے میں ساقی نے دی اس سے کڑی اور بھیسرشک چشم سے موتی بہت پروئے گئےولے یہ داغ جگر سے کبھی نہ دھوئے گئےغرور نے تو ہمارے بہت ہی کھینچا سرپر اس کو ہم بھی سدا خاک میں ملوئے گئےنظیرؔ کیا ہی مزا تھا کہ کل خوشی سے ہمگئے تھے یار کو لینے سو آپ ہی کھو ئے گئےیوں کارواں شباب کا گزرا کہ گو ش زدآواز پا ہوئی، نہ صدائے درا ہوئیپوچھی نظیرؔ ایک نے کل شکل و صل یارہم نے کہا یہ اس سے کہ کیا کہئے کیا ہوئیجو شکل دور باش تھی روز نخست کی اب بھی جو ہم گئے تو وہی بر ملا ہوئیدل ٹھیرا ایک تبسم پر کچھ اور بہار اے جاں نہیںگر ہنس دیجئے اورلے لیجئے تو فائدہ ہے نقصان نہیںجب سنتا ہے احوال مرا یوں کہتا ہے عیاری سےہے کون وہ اس سے ہم کو تو کچھ جان نہیں پہچان نہیںکچھ بن نہیں آتا کیا کیجے کس طور سے ملئے اے ہم دموہ دیکھ ہمیں رک جاتا ہے اور ہم کو چین اک آن نہیںگر ہم نے دل صنم کو دیا پھر کسی کو کیااسلام چھوڑ کفر کیا پھر کسی کو کیاکیا جانے کس کے غم میں ہیں آنکھیں ہماری لالاے ہم نے گونشہ بھی پیا، پھر کسی کو کیاآپھی کیا ہے اپنے گریباں کو ہم نے چاکآپھی سیا سیا، نہ سیا، پھر کسی کو کیانظیر کی انفرادیت غزل میںاگر آپ اس اقتباس کا بغور مطالعہ کریں گے تو آپ کو اس میں ان تمام شعرا کا رنگ نظر آئےگا جو نظیرؔ کے معاصر تھے اور جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خالص تغزل کی بھی اس کے یہاں کمی نہ تھی لیکن جس خصوصیت نے نظیرؔ کو تمام شعرا سے ممتاز بنا دیا ہے اور جس میں اس کا کوئی ہم سر نظر نہیں آتا وہ وہی ہے جو اس کی منظومات میں نظر آتی ہے اور کہیں کہیں بےاختیار رانہ غزلوں میں بھی اس کی جھلک نمایاں ہے۔ نظیرؔ کے غیرمطبوعہ دیوان میں (جو میرے پیش نظر ہے) سو سے زیادہ غزلیں پائی جاتی ہیں، جن میں سے بعض مسلسل ہیں، بعض مستزاد، بعض صرف تضمین کی حیثیت رکھتی ہیں اور بعض یکسر محاکات ہیں۔ نظیر کی خصوصیت اس کا مطالعہ جزئیات ہے، جو اس کی بعض غزلوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے اور جس وقت وہ کسی منظر کی تصویر کھینچنے پر آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایک ذرہ کا حساب لے رہا ہے ایک غزل میں ہولی کا سماں پیش کرتے ہیں،ہولی کی رنگ فشانی سے ہے رنگ یہ کچھ پیراہن کا جو رنگا رنگ بہاروں میں ہو صحن چمن اور گلشن کاجس خوبی اور رنگینی سے گلزار کھلے ہیں عالم میںہر آن چھڑکوں جوڑوں سے ہے حسن کچھ ایسا ہی من کالے جام لبا لب بھر دینا پھر ساقی کو کچھ دھیان نہیںیہ ساغر پہنچے دوست تلک یا ہاتھ لپک لے دشمن کاہر محفل میں رقاصوں کا کیا سحر دلوں پر کرتا ہےوہ حسن جتانا گانے کااور جوش دکھانا جوبن کاہے روپ عبیروں کا مہوش اور رنگ گلالوں کا گلگلوںہیں بھرتے جس میں رنگ نیا ہے رنگ عجب اس برتن کاہو گل رونے یوں ہم سے کہا کیا مستی اور مدہوشی ہےنادھیان ہمیں کچھ چولی کانہ ہوش ہمیں کچھ دامن کاجب ہم نے نظیر اس گل رو سے یہ بات کہی ہنس کر اس دمکیا پوچھے ہے اے رنگ بھری ہے مست مہینا پھاگن کانظیر کے زور بیان اور ذخیرہ الفاظ کے لئے ذیل کی غزل ملاحظہ فرمائیے،دکھا کر اک جھمک دل کو نہایت کر گیا بیکلپری رو، تند خو، سرکش، ہٹیلا چلبلا، چنچلوہ عارض اور جبیں تاباں کہ ہوں دیکھ اس کو شرمندہقمر، خورشید، زہرہ، شمع، شعلہ، مشتری، مشعلکفوں میں، انگلیوں میں، لعل لب میں، چشم میگوں میںحنا آفت، ستم فندق، مسی جادو، فسوں کاجلبدن میں جامہ زر کش سراپا جس پہ زیب آورکڑے بندے چھڑے چھلے انگوٹھی نورتن ہیکلنزاکت اورلطافت وہ کف پا تک کہ حیراں ہوںسمن، گل، لالہ، نسریں، نسترن، دُر، پرنیاں، مخملسراسر پر فریب ایسا کہ ظاہر جس کی نظروں سےشرارت، شوخی، عیاری، طرح، پھرتی، دغا، چلبلنظیرؔ ایک عمر عشرت ہو، ملے ایسا پری پیکراگر اک آن اگر اک دم، اگر اک چھن، اگر ایک پلنظیرؔ نے ایک جگہ سمدھن کا سراپا دکھانے میں جس نقاشی سے کام لیا ہے اس کی مثال اردو شاعری میں مشکل سے مل سکتی ہے۔ ملاحظہ ہو،سراپا حسن سمدھن گویا گلشن کی کیاری ہےپری بھی اب تو بازی حسن میں سمدھن سے ہاری ہےکھنچی کنگھی، گندھی چوٹی، جمی پٹی، لگا کاجلکماں ابرو، نظر جادو، نگہ ہر اک دلاری ہےجبیں مہتاب، آنکھیں شوخ، شیریں لب، گر دنداںبدن موتی، دہن غنچہ، ادا ہنسنے کی پیاری ہےنیا کم خواب کا لہنگا، جھمکتے تاش کی انگیاکھپیں تصویر کسی جن پر لگا گوٹا کناری ہےملائم پیٹ مخمل سا، کلی سی ناف کی صورتاٹھا سینہ، صفا پیڑو، عجب جوبن کی نیاری ہےسریں نازک، کمر پتلی، خط گلزار رومادلکہوں کیا آگے اب اس کے مقام پر دہ داری ہےلٹکتی چال، مدھ ماتی چلے بچھووں کو جھنکاتیادا میں دل لئے جاتی عجب سمدھن ہماری ہےبھرے جوبن پر اتراتی، جھمک انگیا کی دکھلاتیکمر لہنگے سے بل کھاتی، لٹک گھونگٹ کی بھاری ہےایک محبوب کا ذکر غزل میں اس طرح کرتے ہیں،اس گورے بدن کا کوئی کیا وصف کرے آہختم اس کے اوپر گل رخی وسیم تنی ہےمنہ چاند کا ٹکڑا ہے بدن چاندی کی تختیدنداں ہیں گہر، ہونٹ عقیق یمنی ہےبلور کی پتلی کہوں یا موتی کا دانہیا چین میں اک چینی کی مورت یہ بنی ہےنرمی میں، صفائی میں نزاکت میں تن اس کاریشم ہے نہ گلبرگ نہ برگ سمنی ہےگر پھول کی پتی کی بنا پہنے وہ پوشاکچھل جاوے بدن اس کا یہ نازک بدنی ہےکل میں نے کسی شخص سے نام اس کا جو پوچھا یعنی یہ پری یا کہ غزال ختنی ہےوہ بولا کہ اس شوخ کتیں کہتے ہیں ہیراکام اس کا سدا دلبری اور دل شکنی ہےپھر میں نے وہیں ہنس کے کہا اس سے نظیر آہہیرا نہ کہو اس کو یہ ہیرے کی کنی ہےنظیر کی اس خصوصیت کا مزید مطالعہ کرنے کے لئے وہ نظم دیکھئے جو رقاصہ کے عنوان سے اسی رسالہ میں آپ کو کسی جگہ ملےگی۔نظیرؔ کے محاسن شعریوہ شاعر جس کا مطالعہ جزئیات بہت وسیع ہوتا ہے، قدرتاً اس کا میلان صنائع و بدایع کی طرف بھی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ بغیر ان کے وہ اپنے خیالات و جذبات کو بخوبی ذہن نشیں نہیں کرسکتا۔ ایک اچھا نقاش بھی ا س وقت تک کسی حسیں نقش کو کامیابی کے ساتھ پیش نہیں کر سکتا جب تک اس کے پس منظر اور ماحول میں نقش کی معنویت کے لحاظ سے خاص حسن نہ پیدا کیا جائے۔ نظیر کا کلام صنائع و بدایع سے مالا مال ہے جن کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کا موقع نہیں لیکن مختصراً چند مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں، یوں تو تشبیہات و استعارات سے اس کا سارا کلام بھرا پڑا ہے اور کوئی نظم اس صنعت سے خالی نہیں، چنانچہ صفحات سابقہ میں جو اقتباس دیا گیا ہے اس سے بھی آپ کواس کا ثبوت ملےگا لیکن جہاں اس نے مرکب تشبیہات استعمال کی ہیں وہاں نزاکت خیال کی انتہا ہو گئی ہے۔ عاجزی وفتادگی ظاہر کرنے کے لئے شعرا نے متعد د اسالیب اختیار کئے ہیں لیکن نظیرکی انفرا دیت ملاحظہ ہو۔ کہتا ہے،وہ نیاز عجز تھا اس کی نگہ سے آشکارجس طرح تھک رہے طائر کہیں پرواز سےیہ بات اسی کے قلم سے نکل سکتی تھی جس ن تھکے ہوئے طائر کو زمین پر گرتے دیکھا اور ساتھ ہی ساتھ نزاکت تعبیر کا بھی غیر معمولی سلیقہ رکھتا ہو۔ گورے بدن پر سرخ لباس کی کیفیت کو اس طرح ظاہر کرتا ہے، گویا شفق میں ا ٓن کے بجلی چمک پڑی۔ رخسارکو نارنگی کہنا معمولی بات ہے لیکن نظیر اس معمولی بات کو کس قدر اہم بنا دیتا ہے۔سرخ گالوں پہ جو ہم کرتے ہیں اس گل کے نگاہ پڑی نارنگیاں ٹپکے ہیں ہزاروں دل خواہشاعری میں صبح ہونے کو خدا جانے کتنے مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ خاص کر میر انیس کے یہاں بہت تنوع پایا جاتا ہے لیکن نظیر کی انفرادیت کی بھی داد دیجئے۔ کہتا ہے، جب آنکھ سے سورج کی ڈھلا رات کا کجرا۔ ہونٹوں پہ مسکراہٹ آنے کو اس طرح بیان کرتا ہے، مگر کچھ کچھ تبسم کی شکر لب سے لگاملنے۔ ایک جگہ نظیر نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ساقی جام ہاتھ سے لئے ہوئے متحیر کھڑا ہے اور اس کی تشبیہ یوں دیتے ہیں، جس طرح تصویر ساغر بکف۔نظیرؔ کی ایک اور خصوصیت جو بہت کم آپ کو کسی اور شاعر کے یہاں نظر آئے گی، یہ ہے کہ وہ موقع محل کے لحاظ سے الفاظ ایسے استعمال کرتا ہے کہ سامع پر بھی اس کا خاص اثر پڑتا ہے اور سننے والال خوف و ہراس، یا لطف و انبساط کی تمام کیفیات الفاظ میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ برسات کی رنگ رلیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتا ہے،زور مزوں سے رات کو برسا تھا مینہ جھمک جھمکبوندیں پڑیں ٹپک ٹپک، پانی پڑاجھپک جھپکجام رہے چھلک چھلک، شیشے رہے بھبک بھبکہم بھی نشوں میں خوب چھک لوٹتے تھے بہک بہکنظیرؔ کو اختراع الفاظ کا خاص سلیقہ حاصل تھا اور موضوع کے لحاظ سے ان کا اتنا صحیح صرف کرتا تھا کہ الفاظ خود معنی ہو کررہ جاتے تھے، اس مثال میں آپ نے دیکھا کہ مستی و سر خوشی ظاہر کرنے کے لئے جو الفاظ اس نے استعمال کئے ہیں ان میں کتنی موسیقی پائی جاتی ہے۔ ہندوؤں کی صنمیات میں بھیروں کی تصویر بہت ہیبت ناک اور ڈراؤنی دکھائی جاتی ہے۔ نظیر نے ایک نظم اس موضوع پر بھی لکھی ہے (جو غیر مطبوعہ ہے) اس کے بعض بند ملاحظہ کیجئے کہ ہندوؤں کی روایات کے لحاظ سے کیسے مناسب الفاظ اس نے استعمال کیے ہیں۔آنکھوں میں چھا رہا ہے تیرا سروپ کالاتن بھبھوت گہرا، گلے بیچ زنڈ مالاآنکھیں دیا سی روشن، ہاتھوں میں اک پیالاہوں دل سے داس تیرا سن اے مرد بالاماتھے پہ تیرے ٹیکا سیندور کا براجےمدھ پیوے ماس کھاوے جو تو کرے سو چھاجےترسول کا ندھے اور ڈوڑو کی گت بھی باجےسب تج کے میں نے اب تو تیرے کرم کے باجےغصہ میں جب تو آ کر اپنی جٹا ہلاوےدھرتی، اکاس پربت، پاتال دہل جاوےسر کاٹ راچھسوں کی چوٹی پکڑ جھلادےجھانکے کلال خانے، کتے کو خوں چٹا دےنظیرؔ کی مناظر پرستی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ نقوش قدرت میں وہ اپنے آپ کو بالکل گم کر دیتا تھا اور اس لئے اس کے بیان مین قیامت کی والہانہ تکمیل پائی جاتی ہے۔ چاندنی رات اور وصل محبوب، عاشقوں اور شاعروں کی بڑی تمنا رہی ہے اور سبھی نے اس آرزو پر (سر؟) دھنا ہے۔ میرزا مظہرؔ کہتے ہیں،مہتاب و شراب و انتظارتایں روز قیامت است شب نیستنسبتی اس سے زیادہ پر لطف و بلیغ انداز میں فرماتے ہیں۔مے باقی و ماہتاب باقی استمارا بتو صد حساب باقی استاب ایک غیرمطبوعہ مسدس کے چند بند نظیر کے بھی سنئے،جس دم چمن میں چاند کی ہوں خوش جمالیاںاورجھومتی ہوں باغ میں پھولوں کی ڈالیاںبہتی ہوں لے کے جوش سے عشرت کی نالیاںکانوں میں نازنیں کے جھمکتی ہوں بالیاںعیش و طرب کی دھوم نشوں کی بحالیاںجب چاندنی کی دیکھئے راتیں اجالیاںبیٹھی ہو چاندنی سی جو وہ شوخ گل عذار اور باولے کاتن میں جھمکتا ہو تار تارہاتھوں میں گجرا، بالی میں کلیاں گلے میں ہارہر دم نشے میں پیارسے ہنس ہنس کے بار بارہم چھیڑتے ہوں اس کو وہ دیتی ہو گالیاںجب چاندنی کی دیکھئے راتیں اجالیاںایسی ہی چاندنی سی بنائے وہ سب پھبنچمپا کلی جڑاؤ، وہ ہیرے کا نورتنگہنے سے چاندنی میں جھمکتا ہو گل بدناور چاند کی جھلک سے وہ گورا سا اس کا تندکھلا رہی ہو کرتی و انگیا کی جالیاںجب چاندنی کی دیکھئے راتیں اجالیاںوہ گل بدن کہ حسن کا جس کے مچا ہو شورکرتی ہو بیٹھے ناز سے سو چاندنی پہ زورچھلے بھی انگلیوں میں جھمکتے ہو پور پورہم بھی ہوں پاس شوخ کے جوں چاند اور چکوردونوں گلے میں پیار سے بانہیں ہوں ڈالیاںجب چاندنی کی دیکھئے راتیں اجالیاںایدھر ہو حسن باغ، ادھر چاند کی جھلکوہ نازنین بھی زور نشے میں رہی ہو چھکدیتی ہو بوسہ پیار سے ہر دم جھجک جھجکہر آن بیٹھتی ہو بغل میں سرک سرکمنہ پر نشوں کی سرخیاں آنکھوں میں لالیاںجب چاندنی کی دیکھئے راتیں اجالیاںنکھرا ہو چاند نورمیں ڈھلتی چلی ہو راتپھولوں کی باس آتی ہو ہر دم ہوا کے ساتھوہ نازنین کہ چاند بھی ہوتا ہو جس سے ماتبیٹھا ہو سو بناؤ سے ڈالے گلے میں ہاتھگاتی ہو اور نشے میں بجاتی ہو تالیاںجب چاندنی کی دیکھئے راتیں اجالیاںنظیرؔ ہرچند دور مغلیہ کے عہد زوال کا شاعر تھا لیکن چونکہ وہ قدرتاً رجائی Optimist tic انسان تھا، ا س لئے اس کی طبیعت رنگ رلیوں کی طرف زیادہ مائل تھی اوریہی سبب ہے کہ اس کی نظموں میں مناظر کی تصویر کشی کے ساتھ میلان جنسی Sexual Appeal ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا مسدس سے بھی ظاہر ہے۔ ہم پہلے بھی ظاہر کر چکے ہیں کہ نظیر کا مطالعہ جزئیات نہایت وسیع تھا، اور اس نے شاید کوئی بات ایسی نہیں کہی جو اس پر نہ گذری ہو اور اس کا ثبوت اس کے کلام سے بکثرت مل سکتا ہے۔ اسی نظم کو دیکھئے اور غور کیجئے کہ کیا وہ شخص جس نے خود اس منظر کو نہیں دیکھا، کبھی یہ کہہ سکتا ہے کہ،اور چاند کی جھلک سے وہ گورا سا اس کا تندکھلا رہا ہو کرتی و انگیا کی جالیاںصحبت بادہ میں بھی اتنا ہوش کہ گورے بدن کی چھوٹ سے کرتی و انگیاں کی جالیوں کو دیکھ لے اور اس کو نظم میں بھی لے آئے۔ بیک وقت رندی و شاعری کا اتنا عجیب و غریب امتزاج ہے کہ اس کی مثالیں دنیائے شعر میں خال خال کہیں نظر آتی ہیں۔ نظیر میں جدت و اختراع کا مادہ بھی بہت تھا جس کی مثالیں اس کے کلام میں بہت مل سکتی ہیں۔ اس زمانہ میں مسلسل غزلیں کہنے کا رواج تھا۔ خاص کر ظفر اس کا بہت شائق تھا لیکن صرف ایک محاورہ یا ضرب المثل کے لئے پوری غزل کہہ ڈالنا نظیر ہی کی جدت تھی۔ مثالاً دو غزلیں ملاحظہ ہوں۔گلہ لکھوں میں اگر تیرے غم کے چہلوں کا تو ہو نباہ نہ پچھلوں کا اور نہ پہلوں کاسنے سے نام محبت کا تھر تھراتے ہیںیہ کچھ تو حال ہے تیرے ستم کے دہلوں کاکہا جو یار سے اک دن کہ دل یہ چاہے ہےطریق جیسے ہے عشرت کے اہلے گہلوں کامکاں ہو ایک سنہرا دھرے ہوں شیشہ و جامبچھا ہو فرش بھی واں بادلہ روپہلوں کاکھلی ہو چاندنی بکھرے ہوں ڈھیر پھولوں کےپلنگ بھی ہو وے بہت نرم روئی کے پہلوں کایہ سن کے اس نے کہا یہ تو وہ مثل ہے نظیرکہ سوویں جھوپڑے میں خواب دیکھیں محلوں کاجہاں میں جو نہ ہوا اس پری کا دیواناتو اس نے آہ مزہ عاشقی کا کیا جاناکہا یہ شوخ نے تو ہم کو چاہتا ہے نظیرؔیہ پوچھا میں نے بھلا تم نے کس طرح جاناتو ہنس کے کہنے لگا اس طرح میں سمجھا ہوںکہ تجھ کو پاس ہمارے دم بہ دم آناجو ہم نہ ہوویں تو آکر ہمارے کوچہ میںیہ جم کے بیٹھنا پہروں تلک نہ گھبراناجو ہم خفا ہوں تو آکر ہزار منت سےخوشی ہو چھیڑنا ہنس ہنس کے گالیاں کھاناپس ایسی باتوں سے کیونکر نہ چاہ ثابت ہوخدا کو دیکھا نہیں عقل سے تو پہچانانظیرؔ نے مستزاد بھی کہے ہیں لیکن تھوڑی سی جدت کے ساتھ، بعض شعر ملاحظہ ہوں،یہ مہر فزا رخ کرتا ہے نگاہوں کو ترا مطلع انواراب تیرے سوا رخ کس کا ہے بتا نام خدا ایسا جھمک دارفرقت کے الم سے دل تڑپے ہے اور آنکھیں کھلی رہتی ہیں دن راتدیکھیں گے، ترا رخ وہ کون سا دن ہوگا مبارک جو ہم اے یارتضمینوں میں ان کی اپج دیکھئے،رہوں کا ہے کو دل خستہ، پھروں کا ہے کو آوارہاگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل ماراخدا گر مجھ گدا کو سلطنت بخشے تومیں یاروبخال ہندویش بخشم سمر قند و بخاراراپوری غزل اسی ترکیب سے تضمین کی ہے۔ بعض غزلیں انہوں نے اردو فارسی دونوں میں لکھیں ہیں، یعنی بعض شعر اردوکے ہیں بعض فارسی کے۔ اسی قسم کی ایک غزل کے آخری اشعار سنیئے،نظیرؔ ایک دن اس تند خوسے سے میں نے کہایہ فارسی میں کہ اے مہ عذار، زہرہ جبیںچہ کردہ ام کر نگاہے بہ حال من نہ کنیچہ گفتہ ام کہ نگوئی ’دمے بیابنشیں‘بجز جفا و تعدی نمی کنی برمننظر عتاب قریں داری و جبیں پُرچیںدلم برائے ہمیں بردہ کہ ظلم کنیشنید و گفت’بلے بردہ ام برائے ہمیں ‘ایک بار انہوں نے اپنے پنجابی محبوب سے پنجابی میں گفتگو کی تھی۔ ملاحظہ ہو،کل نظیر اس نے یہ پوچھا بزبان پنجاب’’مینہ وچ میندی ہے کہ حال تسا داد ے میاں‘‘ (ہماری محبت میں تمہارے دل کا کیا حال ہے)جوڑ ہتھ ہم نے کہا حال ’اساڈے دل دا‘تسی سب جاندی ہو جی اسے کے عرج کراں(ہمارے د ل کا حال تم سب جانتی ہو جی اسے کیا عرض کریں)اس میں شک نہیں کہ نظیرؔ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ہندوستان کا عجیب و غریب شاعر تھا۔ جس میں کبیر کے اخلاق اور خسرو کی ذہانت کا نہایت دلکش امتزاج پایا جاتا تھا اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو شاعری میں تغزل سے ہٹ کر سب سے پہلے اسی نے نظمیں لکھنے کی ابتدا کی اور سچ پوچھئے توانتہا بھی کر دی، لیکن افسوس ہے کہ وہ بہت قبل از وقت پیدا ہوا۔ وہ اس زمانہ کا شاعر تھا اور اسی زمانہ میں اسے ہونا چاہئے تھا۔