زہرہ کا ایک پجاری
یونان کے اس عہد حسن و عشق میں، جب وہاں کا ذرہ ذرہ، خردۂ مینا کا حکم رکھتا تھا، یوں تو ہمیشہ، ہر روز، محبت کا دیوتا ایک نہ ایک نئی شان میں جلوہ گر ہوا کرتا تھا، اور کوئی لمحہ ایسا نہ ہوتا تھا جو پرستش حسن کے نقوش سے خالی گزر جاتا ہو، لیکن دنیا اور دنیا کی تاریخ یقیناً اس ساعت کی یاد کو محو نہیں کرسکتی جب ایتھنس کے ایک غریب کسان کے گھر میں ساروخا کی صورت میں کیوپڈ نے جنم لیا۔
صبح کا وقت تھا، بہار کی خنک ہوا عطریاتِ صحرا سے لبریز آہستہ آہستہ چل رہی تھی، آفتاب کی گرم نرم شعاعیں شبنم کے قطروں میں جگمگاہٹ پیدا کرکے، درختوں کو بادلہ کا لباس پہنا رہی تھیں اور چڑیاں اپنے نغمہ ہائے رنگارنگ سے فضا کے سکوت میں موسیقی کی غیر مرئی امواج پیدا کر رہی تھیں کہ زہرہ کا معبد جو بلند پہاڑی پر ایک نہر کے کنارے پھولوں کے کنج میں قایم تھا، کھلا اور وہاں کی کنواریوں اور اپنے دف لے کر گانا اور مندر کا طواف کرنا شروع کیا، یہ گویا اعلان تھا اس شہر و بادیہ کے لیے کہ زہرہ دیوی خواب سے بیدار ہوچکی ہے اور پجاریوں کی نذریں قبول کرنے کے لیے اس کے معبد کا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔
اس اعلان کے بعد لوگ جلدی جلدی ضروری کاموں سے فراغت حاصل کرکے اس طرف دوڑ پڑتے تھے اور اس طرح صبح سے لے کر شام تک گویا وہاں میلہ سا لگا رہتا تھا اور کوئی کنج ایسا نہ رہ جاتا تھا، جو عشق کی فتادگیوں اور حسن کی بے نیازیوں کی داستان سے معمور نہ ہوجاتا ہو۔ پھر چونکہ شاہ و گدا، امیر و غریب، سب اس دربار میں برابر تھے، اس لیے عشق و محبت نے بھی اس امتیاز کو مٹادیا تھا، اور اگر کسی گوشہ میں کوئی کسان کا لڑکا امیر کی بیٹی کے سامنے اپنی التجائے محبت پیش کرتا ہوا نظر آتا تھا تو دوسرے گوشہ میں ایک رئیس کا بیٹا کسی غریب مزدور کی لڑکی کے سامنے اپنے ہدایائے عشق پیش کرنے میں تامل نہ کرتا تھا۔
دن کے دس بج چکے تھے، ہنگامہ شباب پر تھا، موسیقی سے سارا صحرا گونج رہا تھا۔ پھولوں کی کثرت سے معبد کا راستہ ڈھک گیا تھا اور دوپہر کے لیے معبد کا دروازہ بند ہونے ہی والا تھا کہ ساروخا کا باپ معہ اپنی بیوی کے نوزائیدہ بچہ کو آغوش میں لیے ہوئے آیا، اور زہرہ کے بُت کے آگے ڈال کر سربجود ہوگیا، اس کی بیوی نے بھی سر جھکادیا اور حد درجہ جذبۂ احترام کے ساتھ یہ نذر انسانی پیش کرتے ہوئے بولی کہ،
’’اے دیوی، اے آسمان و زمین کی ملکہ، میں آج تیرے لیے وہی چیز نذر کے لیے لائی ہوں جو تیرے ہی لطف و کرم سے ہمیں ملی تھی، تو واقف ہے اور تو نہ واقف ہوگی تو پھر کون ہو سکتا ہے کہ میری زندگی اس وقت تک سخت نامرادانہ بسر ہوئی ہے اور باوجود یہ کہ تو نے ہمیشہ میری التجاؤں کو سن کر انھیں بارآور کیا اور ہر مرتبہ میری آغوش کو آباد، لیکن میری بدبختی کہ ہر مرتبہ میری گود اجڑی اور میں صبر کرکے خاموش بیٹھ گئی، تجھ سے میں نے کبھی نہیں کہا کہ شکایت ہوگی، اور مالک کی شکایت کرنا میرا ایمان نہیں، لیکن جب دل اجڑ جاتا ہے تو منھ سے فریاد نکل ہی جاتی ہے۔ بار بار ویرانی نے مجھے دیوانہ بنادیا اور آخرکار میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوئی کہ شاید تجھے ایک غریب کسان کے حال پر رحم کرنے کی فرصت نہیں۔ تجھے اختیار ہے جو سزا جی میں آئے میرے لیے تجویز کردے، لیکن تجھ سے کہوں گی تو جھوٹ نہ بولوں گی۔ یہ خلش ضرور میرے دل میں تھی کہ پھر پانچویں مرتبہ میری امید نے صورت اختیار کی اور وہ صورت یہی ہے کہ جو تیرے قدموں پر پڑی ہوئی ہے، پھر چونکہ اب امد کو بلند کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے اس لیے میں تیری امانت تیرے ہی پاس لائی ہوں کہ تو ہی اس کی پرورش کر، اور تو ہی اس کو اپنی غلامی میں قبول کرکے مستقبل کے اندیشہ سے مجھے آزاد کردے۔‘‘
یہ کہہ کر ساروخا کی ماں نے بچہ کو گود میں لے لیا اور سات مرتبہ بُت کا طواف کرکے قربان گاہ پر اس کو رکھ دیا جس کے چاروں طرف عوددان سے اب بھی بخور کی خوشبو ہو رہی تھی۔
معبد زہرہ میں یہ رسم جاری تھی کہ جب کوئی بچہ اس طرح پیش ہوتا تو وہیں کی کنواریوں کے سپرد کردیا جاتا، اور اس کی پرورش کرنا ان کا فرص ہوجاتا۔ چناں چہ کم و بیش دس بارہ بچے ہر وقت خانقاہ میں رہتے تھے اور ان کے مصارف کے لیے حکومت سے روزینہ مقرر ہوتا تھا جو باقاعدہ ادا ہوتا رہتا تھا۔
جس وقت ساروخا کی ماں قربان گاہ پر ڈال کر باچشم غمناک باہر نکلی تو وہاں ایک پجاری عورت جو خانقاہ کی مہتمہ تھی آئی اور زہرہ کے قدموں سے صندل لے کر اس کے جسم پر ملا، اور وہاں کی کنواریوں میں سے ایک کا انتخاب کرکے بچہ اس کے سپرد کیا اور بولی کہ ’’بچہ اس قدر حسین نہ ہوتا تو تمہارا انتخاب میں نہ کرتی اس لیے اس کی نگہداشت حقیقتاً تمہاری اپنے حسن کی نگہداشت ہے، جاؤ لے جاؤ اور دیوی کے اس عطیہ کی عزت کرو۔‘‘
گزشتہ واقعہ کو ۱۸سال کا زمانہ گزر گیا ہے، اور اس عرصہ میں معبد زہرہ میں خدا جانے کتنے بچوں کی نذریں پیش کی گئیں اور ان میں سے خدا معلوم کتنے فنا ہوگئے، لیکن ساروخا جب سے آیا تھا اس وقت سے لے کر ۱۸سال کی عمر تک اس کے طبعی نشونما میں کوئی چیز حائل نہیں ہوئی اور وہ زہرہ کے فرح بخش معبد کے حدود، اس کے عشق نواز صحرا اور حسن پر ور کنجوں میں بڑھتا رہا، گویا کہ وہ جنگلی گلاب کا پھول تھا۔
قاعدہ تھا کہ معبد کے نذر شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کو سوائے گانے اور نے نوازی کے اور کسی چیز کی تعلیم نہ دی جاتی تھی۔ چنانچہ وہاں کے ماہرین موسیقی نے اس کو بھی یہی سکھایا اور اس درجہ تکمیل کے ساتھ ان کے پاس کوئی نیا راگ ساروخا کی تعلیم کے لیے باقی نہ رہ گیا، وہ فطرت کی طرف سے ایسا صحیح ذوق موسیقی کا لایا تھا، کہ چند سال میں اس نے سارا نصاب نغمہ ختم کرلیا، اور خود اس میں ایسی ایسی اختراعیں کرنے لگا کہ بعض اوقات اساتذۂ فن اس کی ذہانت کو دیکھ کر متحیر رہ جاتے تھے، لیکن اس سے بھی زیادہ قابل قدر چیز جس کو اس نے بغیر کسی کی ہدایت کے خود فطرت کی مدد سے حاصل کیا تھا اس کا ذوق شعری تھا وہ گھنٹوں مندر کے اندر تنہا بیٹھا رہتا، کسی فکر میں مستغرق کسی خیال میں منہمک اور جب باہر نکلتا تو اس کے چہرہ پر خاص چمک ہوتی، آنکھوں میں عجیب و غریب روشنی ہوتی۔ رفتار میں ایک مخصوص مستانہ پن ہوتا۔ وہ دل ہی دل میں بے خبرانہ انداز سے پہروں اپنے کہے ہوئے شعر گن گنایا کرتا اور جب رات کو وہ اپنی بانسری کے ساتھ معبد زہرہ کے سامنے ان کو گاتا، اپنے زائدۂ روح کو الفاظ کے ملبوس اور موسیقی کے لباس میں پیش کرتا تو ہر سننے والا اپنی جگہ کانپ کانپ جاتا اور ایسا محسوس کرتا کہ شاید دیوی زہرہ اب اپنی جگہ سے اٹھنے ہی والی ہے۔
رفتہ رفتہ ساروخا کے اس کمال کی شہرت گھر گھر پھیل گئی اور چند دن میں یہ عالم ہوگیا کہ شہر ایتھنس کی ہر لڑکی اس کے گانے پر دم دینے لگی۔ اور معبد میں اس قدر ہجوم ہونے لگا کہ مشکل سے پہاڑی کے دامن میں زائرین کی جماعتیں سماسکتی تھیں۔ ساروخا کے وہ بڑے بڑے بال جو اس کی خوبصورت مرمریں گردن پر بے شمار حلقوں اور نرم نرم چھلوں کی صورت میں پرے رہتے تھے، اس کا وہ صحیح وتوانا جسم جس کے اندر شباب نے اپنا مخصوص رنگ بھر کر یکسر بنائے رنگیں بنادیا تھا۔ اس کا وہ حسین نقشہ جس کی سیاہ بڑی بڑی آنکھوں کے اندر سے زہرہ ہروقت افسول کرتی ہوئی معلوم ہوتی تھی، اس کا وہ متناسب الاعضا قامت جس کے ہر ہر حصہ سے پہاڑ کی شگفتگی و نرمی کا مفہوم پیدا ہوتا تھا اور اس کی وہ سنجیدگی و متانت جو ہر ایک سر کو اپنے سامنے جھک جانے پر مجبور کردیتی تھی، یہ تمام باتیں بجائے خود اس میں اس قدر تکمیل کے ساتھ پائی جاتی تھیں کہ اگر ان میں کسی اور چیز کی اضافہ نہ ہوتا، تو بھی وہ طبقۂ لطیف کے ایک ایک فرد سے اپنی پرستش کراسکتا تھا، لیکن اس کی شاعری و موسیقی نے تو اس کے اندر اس بلاکی کشش پیدا کردی تھی کہ اس کے سامنے پہنچ کر اپنے آپ پر قابو رکھنا مشکل ہوجاتا تھا اور ایتھنس کی لڑکیاں باوجود یہ کہ ان کا نشو و نما حسن و عشق ہی کے سایہ میں ہوتا ہے، حیران تھیں کہ ساروخا کے ساتھ جذبۂ محبت کیوں کر وابستہ ہوسکتا ہے جب کہ دنیا کی کوئی شیفتگی اس کے کمالات کا جواب ہو ہی نہیں سکتی۔
اول اول تو ساروخا نے انتہائی معصومیت سے یہ سمجھا ہی نہیں کہ وہ ایتھنس کے لیے مرکز کشش ہوگیا ہے۔ علی الخصوص عورتوں کے لیے جو نہایت حریصانہ آمادگی کے ساتھ اس کو دیکھنے اور سننے کے لیے جمع ہوجاتی تھیں، لیکن ایک رات جب کہ وہ مندر کے اندر بے انتہا ہجوم میں اپنے کہے ہوئے یہ شعر گا رہا تھا،
’’اے ملکہ، میں تجھے کیسے پوجوں، اپنے جذبۂ پرستاری کی آگ کیوں کر ٹھنڈا کروں، جب جنگل کی خاردار جھاڑیوں میں کسی کانٹے سے چبھ کر میرے جسم پر خون کا کوئی قطرہ نظر آجاتا ہے، تو میں کانپ اٹھتا ہوں کہ و ہ چیز جس کو تیرے کام آنا چاہیے تھا یوں بے کار ضائع ہوگئی۔ پھر اے تو وہ کہ تیرے قدموں میں تڑپ تڑپ کر جان دے دینا، ایک مکمل نشاط زندگی ہے، کیوں نہیں اپنی امانت مجھ سے لے لیتی، کہ اب اس کے بار سے میرا سینہ شق ہوا جاتا ہے۔‘‘
تو چند نوجوان لڑکیوں نے بے اختیار ہوکر اس کا منھ چوم لیا (کیونکہ مندر کے اندر مغلوبیت کے عالم میں اس طرزِ عمل کی اجازت تھی) اور اسی وقت سب سے پہلے اسے معلوم ہوا کہ پوجنے کی طرح پوجے جانے میں بھی لذت ہے اور جس وقت عورت کی طرف سے یہ جذبہ پیش کیا جاتا ہے تو اس میں ایک خاص قسم کا نشہ بھی ہوتا ہے، چونکہ رسم و قاعدہ کے لحاظ سے اس کو اس طرزِ عمل پر خاموش رہنا چاہیے تھا، اس لیے وہ بولا تو کچھ نہیں لیکن اس نے یہ ضرور محسوس کیا کہ تھوڑی دیر کے لیے زہرہ کی طرف سے اس کا خیال ہٹ گیا تھا اور اس لیے وہ اس کے بعد اس طرح مضمحل ہوگیا جیسے گلاب کا پھول کثرت لمس سے مرجھا جائے۔
جن حالات کے ماتحت ساروخا کی پرورش ہوئی تھی اور جن سادہ داعیات فطرت کے ساتھ وہ اپنے شباب کی حد تک پہنچا تھا، ان کا اقتضا یہی ہونا چاہیے تھا کہ وہ صحیح معنی میں راہبانہ زندگی بسر کرے اور سوائے اس دیوی کے خیال کے جس کی خانقاہ میں اس نے ہوش سنبھالا تھا اور تمام دنیاوی جذبات و خواہشات کو یکسر محو کردے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہ ہوتا، لیکن اسے کیا خبر تھی کہ دنیا میں انسانی زندگی پر ایک ایسی ساعت بھی گزرتی ہے جب ایک لمحہ کے لیے وہ اپنا وزن، اپنی حقیقت کا علم حاصل کرنے کے لیے ٹھہر جاتی ہے اور یہ لمحہ اس قدر ہوشربا، اس درجہ سحرانگیز ہوتا ہے، کہ اس کی لذت سے محسور و مغلوب ہوجانے کو بے اختیار جی چاہنے لگتا ہے اور پھر انسان کا سارا ماضی و مستقبل اسی لمحہ میں تبدیل ہوجانے کے لیے حال بن کر رہ جاتا ہے۔ جس وقت تک ایتھنس کی عورتوں نے دور ہی دور سے اپنے جذبات صرف نگاہوں کے ذریعہ سے پہنچانے کی کوشش کی۔ ساروخانے پرواہ نہیں کی۔ لیکن جب اس میں ناکام رہنے کے بعد انھوں نے زیادہ بے صبری سے کام لیا، اور اس کے جسم تک پہنچنے کی جسارتیں کرنے لگیں تو وہ بے چین ہوگیا اور محسوس کرنے لگا کہ اس کی روح بلندی سے نیچے کی طرف گر رہی ہے اور اس کی شاعری و موسیقی کی قوت میں کچھ اضمحلال پیدا ہونے لگا ہے۔ اس لیے وہ اب بہت فکرمند رہتا اور گھنٹوں سوچا کرتا کہ دنیا میں یہ مرد عورت کی تفریق کیوں ہے اور اگر اس سے کوئی خاص مدعا نہیں ہے تو پھر قدرت نے یہ فرق و امتیاز کیوں رکھا ہے، لیکن یہ مدعا کیا ہوسکتا ہے؟ اس کو نہ وہ سمجھتا تھا اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔
اس حال میں مہینوں گزر گئے اور معبد میں پابندی کے ساتھ حاضری دینا بھی اس نے ترک کردیا، لیکن اس سے لوگوں کے شوق میں اور زیادہ شدت پیدا ہوگئی اور آخر کار رفتہ رفتہ یہ خبر شاہ یونان کی بیٹی، سلیخا کو بھی پہنچ گئی کہ ساروخا، جس کے حُسن و شباب، شاعری و نغمہ سرائی نے قیامت برپا کر رکھی ہے آج کل کچھ مضمحل ہے اور مشکل سے کبھی کسی وقت معبد میں نظر آتا ہے۔
سلیخا نے اس سے قبل بارہا چاہا کہ وہ ساروخا کو دیکھے، اس کا گانا سنے، لیکن چونکہ حسب قاعدہ نہ وہ معبد کے کسی پوجاری کو طلب کرسکتی تھی اور نہ خود سال میں دومرتبہ سے زیادہ وہاں جاسکتی تھی، اس لیے اس کی آرزو پوری نہ ہوئی اور جب اس کے معبد جانے کا زمانہ قریب آیا تو معلوم ہوا کہ ساروخا نے وہاں کی حاضری ترک کردی ہے۔ اس نے معبد کے مہتمم سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی ساروخا چند دن سے بہت مضمحل ہے، اور ہر وقت خاموش رہتا ہے، پوچھا جاتا ہے تو بھی سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہیں ملتا۔ سلیخا نے پھر کہلا بھیجا کہ ’’جو کچھ ہو میری حاضری کے دن ساروخا کا معبد میں حاضر ہوکر گانا ضروری ہے، کیونکہ میں نے اس کے گانے کی بہت شہرت سنی ہے اور اگر اس دفعہ میں کامیاب نہ ہوئی توچھ ماہ کے لیے پھر مجھے کوئی موقعہ نہ ملے گا۔‘‘
لیکن یہ بھی سلیخا کی خوش قسمتی تھی کہ مہتمم معبد کو اس کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں ہوئی اور سلیخا کی حاضری کا مقررہ دن آنے سے پہلے ہی اس کے حال میں پھر انقلاب پیدا ہوا اور بدستور معبدمیں آکر اسی جوش و خروش کے ساتھ گانے اور نے نوازی کرنے لگا۔
اتنے دنوں کے اضمحلال کے بعد ساروخا اپنی پہلی شان کے ساتھ معبد میں آیا اور نئے نئے شعر بالکل نئی راگنیوں کے ساتھ اس نے سنائے تو سارا یونان دوڑ پڑا، اور پھر اسی بیتابی کے ساتھ ساروخا کی زیارت کا شوق وہاں کی عورتوں میں زندہ ہوگیا۔
جوں جوں شاہ یونان کی بیٹی سلیخا کی آمد کا دن قریب آتا جاتا تھا، معبد کی آرائش و صفائی میں زیادہ انہماک پیدا ہوتا جارہا تھا اور لوگوں کی آمد ورفت بڑھتی جارہی تھی، اس طرف سلیخا بھی بے چین تھی کہ کس طرح وہ معبد میں پہنچ کر ساروخا کو دیکھے، کیوں کہ وہ ڈرتی تھی کہ مبادا پھر اس پر اضمحلال طاری ہوجائے۔
آخر کار مقررہ دن آیا اور قصر شاہی سے لے کر معبد زہرہ تک سرخ و سبز مخمل کا فرش بچھا دیا گیا، دور ویہ قنات قایم کرکے، سپاہیوں کا پہرہ مقرر ہوگیا اور ٹھیک صبح آٹھ بجے سلیخا مع اپنے غلاموں اور کنیزوں کے معبد کی طرف روانہ ہوگئی۔
سلیخا، شاہ یونان کی سب سے چھوٹی لیکن سب سے زیادہ محبوب بیٹی تھی، اور باخبر حلقوں میں ہر شخص کو اس کاعلم تھا کہ شاہ یونان اپنے بعد اسی کے لیے تخت و تاج چھوڑ جائے گا۔ سلیخا اپنی ذہانت و قابلیت کے لحاظ سے ایسی غیرمعمولی لڑکی تھی کہ تمام عقلاء یونان حیران تھے کہ ۱۸سال کی عمر میں ایسی زبردست پرواز فکر اس میں کیونکر پیدا ہوگئی، حسن ظاہری کے لحاظ سے بھی مشہور تھا کہ یونان میں اس کاکوئی نظیر نہیں ہے۔ اس لیے جب سال میں دو مرتبہ وہ معبد زہرہ میں حاضری دینے کے لیے باہر نکلتی تھی تو تماشائی پروانہ وارٹوٹ پڑتے تھے اور جب تک سلیخا نگاہوں کے سامنے رہتی تھی سب پر سکتہ سا عالم طاری رہتا تھا۔
الغرض فرش مخملیں پر پھولوں کو روندتی ہوئی سلیخا اپنے قصر سے نکلی اور خراماں خراماں تین گھنٹے کے اندر معبد زہرہ کے حدود کے اندر پہنچ گئی۔ یہ رسم تھی کہ جب شاہزادی یہاں آتی تھی تو سب سے پہلے معبد کے اندر جاکر اپنی نذر پیش کرتی تھی اور پھر باہر آکر زائرین کی نذریں خود قبول کرتی تھی اور چلتے وقت معبد کو دے آتی تھی۔ چنانچہ وہاں پہنچتے ہی، اس نے اپنے چہرہ سے نقاب علیحدہ کیا۔ نذر کے مخصوص لباس یعنی شاہ ریشمی چادر میں اپنے آپ کو لپیٹا۔ کہنیوں تک ہاتھوں کو عریاں کرکے ہتھیلیوں پر گلاب کا ہار اور اس پر ۱۵۰اشرفیاں رکھیں اور انتہائے جذبۂ احترام کی معصوم کیفیت اپنی رفتار میں پیدا کرکے آگے بڑھی۔ اس کی گردن جھکی ہوئی تھی، آنکھیں مائل بہ زمین تھیں۔ جسم پر ہلکا سا رعشہ طاری تھا اور وہ زہرہ کے قدموں پراپنی نذر پیش کر رہی تھی اور چاروں طرف ہنگامۂ موسیقی برپا تھا۔
نذر پیش کرنے کے بعد ہی اس کی نگاہوں نے ساروخا کی جستجو کی، لیکن اس کو کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ اس وقت وہ یہاں موجود نہ تھا۔ ہر چند اس کو اس سے سخت تکلیف و مایوسی ہوئی لیکن وہ کچھ نہ بولی کیونکہ ابھی شام کی حاضری باقی تھی اور اس نے سنا بھی یہی تھا کہ اکثر و بیشتر وہ رات ہی کی عبادت میں شریک ہوتا ہے۔
آفتاب غروب ہوچکا ہے، معبد زہرہ روشنیوں کی کثرت سے بقعۂ نور بنا ہوا ہے۔ عود کی خوشبو سے ساری پہاڑی معطر ہو رہی ہے۔ ساروخا اپنی روح کے انتہائے تصرف کے ساتھ نہایت عجیب و غریب لحن میں زہرہ کی تعریف گا رہا ہے، کہ شاہزادی سلیخا شوق و بیتابی کا بحر متلاطم اپنے سینہ میں لیے ہوئے اندر داخل ہوئی اور گزشتہ چھ ماہ سے پرورش پانے والی تمنا اس کی نگاہوں کی راہ سے نکلی اور ساروخا کے چہرہ پرپڑی۔
ہرچند اس کو معلوم تھا کہ آج شاہزادی آئی ہوئی ہے اور وہ اس کے تمام کمالات ظاہری و باطنی سے بھی واقف تھا، لیکن جس وقت وہ معبد کے اندر ہوتا تھا، تو ساری دنیا کو بھول جاتا تھا اور انتہائی استغراق کی حالت میں مصروف نغمہ رہتا تھا، اس لیے شاہزادی اندر آئی دیر تک کھڑی رہی، پھر اپنی نذر چڑھائی، بخور سلگایا، لیکن ساروخا اپنی محویت سے باہر نہیں ہوا اور اسی طرح ایک خاص عالم سکر میں گاتا رہا۔
ادھر سلیخا کا یہ عالم تھا کہ جس وقت اس کی اولین نگاہ اس پر پڑی تو وہ مشکل سے یقین کرسکی کہ یہ کوئی دیوتا نہیں بلکہ انسان ہے۔ وہ ایسا محسوس کر رہی تھی کہ شاید وہ خواب دیکھ رہی ہے کہ اڈوٹس اپنی اس بے اعتنائی پر اظہار ندامت کرنے کے لیے جو اس نے کسی وقت وینس سے کی تھی، آیا ہے اور اب طلب عفو کر رہا ہے۔
وہ دیر تک متاثرانہ حالت میں کھڑی رہی اور پھر بے اختیار ہوکر آگے بڑھی اور ساروخا کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر اس کو چونکا دیا۔ ’’کون؟‘‘
’’میں ساری دنیا کے لیے شاہ یونان کی بیٹی اور تیرے لیے صرف سلیخا، میں عرصہ سے تیرے کمالات کا شہرہ سن رہی تھی، اور تجھ سے ملنے کی آگ عرصہ سے دل میں دبائے ہوئے تھی۔ آج آخر کار میں نے تجھے دیکھ لیا تیرے کمال کا خود اندازہ کرلیا۔ اور اس کے اعتراف میں تیرے لیے موتیوں کا ہار لائی ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ تو خود اس کو میری گردن سے اتارے۔‘‘
ساروخااپنے حواس مجتمع کرنے میں مصروف تھا اور اس نے اس تقریر کا پہلا حصہ بالکل نہیں سُنا، جب ہوش میں آیا تو شاہزادی اپنا آخری فقرہ ادا کر رہی تھی۔ اس لیے وہ بالکل نہ سمجھ سکا کہ یہ کیا بات ہے اور کون اس کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ وہ یہ سن کر متحیرانہ شہزادی کو کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ اور پھر آہستہ آہستہ اٹھ کر ذرا علیحدہ ہوگیا اور بولا کہ،
’’تیری گردن سے کیا چیز اتارلوں۔ موتیوں کا ہار؟ یہ میرے کس کام آئیں گے؟ میں ان کو آنسوؤں میں بھی تو تبدیل نہیں کرسکتا۔ یہ بہت سخت ہیں۔ رقیق ہوکر میری پلکوں سے نہیں ٹپک سکتے۔‘‘
سلیخا نے یہ سن کر جواب دیا کہ ’’اے ساروخا، مجھ میں اب تیری شاعری کی برداشت باقی نہیں ہے، میں مسلسل ایک گھنٹہ سے تیرے ان آتشیں جذبات کے سامنے پگھلی جارہی ہوں، جن کو تو اس آزاری سے اداکرتا ہے اور مطلق اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کوئی عورت ان کو سننے کے بعد کیونکر زندہ رہ سکتی ہے۔ کیا تجھے معلوم نہیں وہ آگ جو تونے سرزمین یونان میں لگارکھی ہے، قصر شاہی کے اندر بھی پہنچ گئی اور وہاں کا تنہا گوہر شب چراغ مشتعل ہوکر اب خاک ہوجانے کے قریب ہے۔‘‘
ساروخا اب سمجھا کہ یہ شاہزادی ہے، اور یہ سمجھنے کے بعد ہی اس نے مودبانہ سرجھکاکر عرض کیا کہ ’’اے ملکۂ عالم، مجھ سے میرا پندار عجزنہ چھینیں۔ کیسی شاعری، کہاں کے آتشیں جذبات کجا قصر شاہی کی بلند دیواریں اور کجا میری بانسری کی ضعیف آواز۔ کیا دنیا نے مجھے تباہ و برباد کرنے کی قسم کھالی ہے۔ اے ملکہ کیا واقعی تیری اتنی وسیع سلطنت میں میرے رہنے کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ تو قزاقوں اور رہزنوں کا استیصال کرتی ہے، تو مظلوموں کی فریاد کو پہنچتی ہے، تو خدا کی طرف سے اپنی رعایا کے امن و سکون کی ذمہ دار ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ تمام اپنے فرائص اچھی طرح انجام دیتی ہوگی، لیکن تو بے خبر ہے تو ایک میرے حال سے غافل ہے تو ایک میری بیکسی سے۔ دنیا ہنگامہ کی طالب ہے، شہرت کی خواہش مند ہے، دولت کی متمنی ہے، لیکن میں تو صرف سکون چاہتا ہوں۔ سوائے اس کے کوئی خواہش نہیں کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن کیا قیامت ہے کہ میری یہ حقیر تمنا بھی پوری نہیں ہوتی۔ میں کسی کو نہیں دیکھتا، تو کوئی مجھے کیوں دیکھے، میں کسی کی تمنا نہیں کرتا پھر وہ سرا میری تمنا کیوں کرے۔ میں تعریف سے گھبراتا ہوں تو کیوں کوئی میری تعریف کرے۔ مجھے ان کے انعام کی ضرورت نہیں، صلہ کی پرواہ نہیں، سرے سے دنیا ہی میں رہنے کی حاجت نہیں، پھر کیوں مجھے ستایا جائے کیوں دکھ دیا جائے۔‘‘
سلیخا نہایت غور سے سنتی رہی اور اس کی شیریں آواز سن سن کر اور تباہ ہوتی رہی، حتی کہ ساروخا نے اپنی گفتگو ختم کی اور ایک طویل آہ کھینچ کر خاموش ہوگیا۔ چند لمحہ تک دونوں طرف سکون کا عالم طاری رہا اور نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سکون کب تک طاری رہتا لیکن سلیخا نے یہ دیکھ کر کہ وقت کم رہ گیا ہے ایک آخری جسارت سے کام لیا اور بولی کہ،
’’اے ساروخا تو انسان پیدا ہوا ہے اور انسان ہی کی طرح تجھے زندگی بسر کرنا ہے، تو اگر سکون کی تلاش اس لیے کرتا ہے کہ جامد ہوکر زہرہ دیوی بن جائے تو ممکن نہیں۔ تو پتھر نہیں ہے گوشت پوست کی مخلوق ہے اور اگر آج نہیں تو کل تجھے اس کا احساس ہوگا، پھر تو کیوں اس وقت اس چیز کو ٹھکراتا ہے جس کے لیے تو دوسرے وقت بیتاب ہوجانے والا ہے۔ اگر دنیا تیری قدر کرتی ہے تو تجھے اس پر مسرور ہونا چاہیے کہ نظام فطرت یہی ہے اور اگر کوئی ہستی تیری تمنا کرتی ہے تو تجھے بھی اس کی تمنا کی پذیرائی کرنی چاہیے کہ دنیا کاانتظام اسی طرح جاری ہے۔ تو خوبصورت ہے، جوان ہے، شعر و موسیقی کا خدا ہے، اور ان میں سے ہر چیز اپنی جگہ پرستش کے قابل ہے، چہ جائیکہ ان سب کااجتماع، اگر تو چاہے تو اک مستقل دیوتا کی سی زندگی بسرکرسکتا ہے، میں نے جس وقت تک تجھے نہیں دیکھا تھا صرف دیکھنے کی خواہش رکھتی تھی، جب دیکھ لیا تو تجھے پالینا چاہتی ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ بغیر اس کے میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ پھر چونکہ ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے کوشش کرے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ میں بھی اس کے لیے کوئی دقیقہ کوشش کا نہ اٹھا رکھوں گی۔‘‘ وہ کہتی جاتی تھی اور آگے بڑھتی جارہی تھی یہاں تک کہ ساروخا کے قریب پہنچ کر اس نے اپنا ہاتھ بڑھادیا۔ اور اس کی آستین پکڑ کر اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنا چاہا۔ لیکن اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، تیوریاں چڑھ گئیں اور ایک خاص انداز استغناء کے ساتھ بولا کہ ’’اے ملکہ اپنے حسن کا جادو مجھ پر نہ ڈال، مجھے معلوم ہے کہ تو بہت حسین ہے اور ایک شخص کو اپنی محبت پیش کرکے دیوانہ بناسکتی ہے، لیکن تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ ساروخا واقعی پتھر ہے، اور سحرِ جمال کا اثر قبول کرنے کے لیے بالکل نااہل، ممکن ہے کہ تو اس کے بدن میں کوئی گرمی محسوس کرے، لیکن اس کا دل حقیقتاً برف کی قاش ہے۔ پھر اگر تجھے پتھر ہی سے محبت کرنا ہے، تو سر ٹکرانے کے لیے ساری پہاڑی موجود ہے، مجھی میں کیا خصوصیت ہے؟‘‘
سلیخا میں جہاں اور باتیں تھیں وہیں ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ بلا کی خوددار تھی۔ پھر چونکہ اس کی زندگی میں کسی کے سامنے التجا پیش کرنے کا یہ بالکل پہلا موقعہ تھا، اس لیے اس کے رد کردیے جانے کی تلخی کو اس نے نہایت شدت کے ساتھ محسوس کیا اور جس طرح ناگن چوٹ کھانے کے بعد غضب آلود ہوجاتی ہے، اسی طرح وہ بھی ساروخا کا یہ جواب سن کر طیش میں آگئی اور اس نے عزم کرلیا کہ اگر میں پہلے اپنی محبت کی مجبوری سے اس کو حاصل کرنا چاہتی تھی، تو اب جذبۂ انتقام پورا کرنے کے لیے اس کو شکست دوں گی۔ چنانچہ ساروخا کی یہ گفتگو سن کر وہ فوراً علیحدہ ہوگئی اور تن کر بولی کہ ’’اے کسان کے بیٹے، جو کچھ میں تجھ سے سن رہی ہوں وہ خلاف توقع نہیں ہے۔ اس تنک ظرفی کی مثالیں بہت سی میری نگاہ میں گزرچکی ہیں اور میں جانتی ہوں کہ برتن میں جب اس کی سمائی سے زیادہ پانی پڑے گا تو ضرور چھلک جائے گا، لیکن شاید تو نے ابھی تک یہ محسوس نہیں کیا کہ تو اس وقت کس سے مخاطب ہے۔ کیا تو اس سے بے خبر ہے کہ میں جب کسی سے اپنی محبت ہٹالیتی ہوں تو اس کا صرف ایک ہی مطلب ہوا کرتا ہے اور وہ یہ کہ میں اس سے نفرت کرنے لگی ہوں۔ اور تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میرا کسی سے نفرت کرنا اس کی زندگی کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ پھر قبل اس کے تو کوئی فیصلہ کرکے مجھے کسی عزم پر مجبور کرے، اس پر غور کرلے کہ تو کس کو اپنا دشمن بنارہاہے، تونے اس وقت تک سیکڑوں چیونٹیاں پامال کرڈالی ہوں گی۔ لیکن میرے لیے تجھے مسل دینا اس سے کہیں زیادہ آسان ہے، پھر اب بول، وقت کم ہے اور اس وقت جانے سے قبل مجھے انتظام کرنا ہے کہ کل سرزمین یونان کس خبر کو سننے کے لیے آمادہ ہو۔‘‘
ساروخا یہ سن کر بالکل خلاف عادت زور سے ہنسا اور بولا کہ ’’اے ملکہ مجھے تیرے اقتدار کا علم ہے اور میں جانتا ہوں کہ تو جتنی دیر میں میرے تباہ کرنے کا ارادہ کرسکتی ہے، اس سے جلد تو اس پر عمل کرسکتی ہے، لیکن گستاخی نہ ہو تو مجھے پوچھنے دے کہ دنیا میں وہ کون سی تباہی ہے جس کے ڈر سے میں اپنے آپ کو کسی ناپاک خیال سے ہلاک کرنا گوارا کرلوں گا۔ میں اپنے آپ کو جس دیوی کے لیے وقف کرچکا ہوں اس کے احترام میں اگر جان سے زیادہ کوئی عزیز چیز ہوسکتی ہے تو اس کی قربانی سے بھی گریز نہیں کرسکتا۔‘‘
سلیخا نے جواب دیا کہ ’’ہاں، جان سے زیادہ ایک عزیز چیز اور ہے اور میں وہی تجھ سے چھین لوں گی، اگر تجھے معلوم نہیں ہے تو بتانا چاہتی ہوں کہ وہ چیز تیری عزت و آبرو ہے۔ کیا تو اس سے انکار کرسکتا ہے کہ تو نے معبد کی تنہائی میں میری عصمت پر حملہ کیا، اور کیا میری ایک چیخ تجھے بدترین مذلت میں گرفتار نہیں کرا سکتی، اور تیری یہ عزت آن واحد میں خاک آلود نہیں ہوسکتی۔ لیکن میں ایسا کرنے سے ابھی باز رہوں گی اور ایک مرتبہ تجھے اور سمجھاؤں گی کہ خواہ تو اپنے خیالات کے لحاظ سے کتنا ہی مقدس کیوں نہ ہو، لیکن کفران نعمت کو کوئی مذہب گوارا نہیں کرسکتا۔ کیا تجھے نہیں معلوم کہ تیرا گوشت پوست تیرا خون، تیری روح اور اس وقت تک کی تیری ساری زندگی میری ہی ممنون احسان رہی ہے، اور میرے ہی نمک سے پل کر تو اس قابل ہوا ہے کہ آج دنیا تجھ پر رشک کرتی ہے۔ پھر اگر کوئی اور خیال تجھے میری طرف مائل نہیں کرسکتا، تو کم از کم حق نمک کا پاس تو تجھے ضرور کرنا چاہیے۔ علی الخصوص اس وقت جب کہ میں تجھ سے سوائے اس کے کچھ نہیں چاہتی کہ میرا یہ موتیوں کا ہار اپنے ہاتھ سے اتار کر گلے میں ڈال لے۔‘‘ یہ کہہ کر سلیخا پھر آگے بڑھی اور اس خیال سے کہ ساروخا اب کافی متاثر ہوچکا ہے، اس نے ہاتھ بڑھایا کہ اس کا دامن کھینچ کر اپنے سے قریب کرلے لیکن ساروخا اس مرتبہ زیادہ تندخوئی سے پیچھے ہٹا اور بپھر کر بولا کہ ’’اے شاہزادی، اس میں شک نہیں کہ میری زندگی تیرے ہی احسان کا نتیجہ ہے۔ اور میرے خون کا ہر قطرہ تیرا ہی بخشا ہوا ہے۔ اس لیے جس وقت تک میں زندہ ہوں تجھے حق حاصل ہے کہ مجھے اپنے فرمان کی تعمیل پر مجبور کرے۔ لیکن شاید تجھے معلوم نہیں کہ تیری ودیعت میں ہر وقت واپس کرسکتا ہوں اور اپنے خون کا آخری قطرہ بہاکر اس پابندی سے آزاد ہوسکتا ہوں۔ پھر مطمئن رہ کہ دوبارہ اس طعن کے سننے سے قبل میں وہ سب کچھ کردکھاؤں گا جس کی تجھے توقع نہیں ہوسکتی۔‘‘ اس نے یہ کہا اور بجلی کی طرح ایک چیز ہوا میں چمک کر اس کے سینہ میں داخل ہوگئی۔ لیکن قبل اس کے کہ سلیخا اس تمام منظر کو سمجھ کر کوئی تدبیر اختیار کرتی۔ زہرہ کا پجاری اپنی معبودہ کے قدموں پر جان دے چکا تھا۔ اور ہمیشہ کے لیے اس دنیا کے احسان سے سبکدوش ہوگیا تھا جو اپنی تنک ظرفی کی ایسی یادگاریں قایم کرنے میں ہمیشہ سے جری ہے اور غالباً رہے گی۔