نظر سے دور رہے مجھ کو آزمائے بھی

نظر سے دور رہے مجھ کو آزمائے بھی
اگر وہ وقت نہیں ہے تو لوٹ آئے بھی


ہے آبشار تو احساس کو کرے سیراب
وہ پیاس ہے تو مری تشنگی بڑھائے بھی


وہ موج ہے تو مجھے غرق بھی ضرور کرے
ہے ناخدا تو بھنور سے نکال لائے بھی


وہ خواب ہے تو کرے بس قیام آنکھوں میں
اگر ہے خوف تو نیندیں مری اڑائے بھی


وہ مسئلہ ہے تو میری جبیں پہ روشن ہو
وہ کوئی حل ہے تو دل کو قرار آئے بھی


نظر شناس نہ ہو تو مجھے بھی تڑپائے
وہ دل نواز اگر ہے تو مان جائے بھی


اگر وہ اور کوئی ہے تو کوئی بات نہیں
ہے زندگی تو اندھیروں میں گنگنائے بھی