نظر نے کام کیا دل کے ترجماں کی طرح
نظر نے کام کیا دل کے ترجماں کی طرح
نگاہیں کہہ گئی سب حال دل زباں کی طرح
کیے تھے بے خودیٔ شوق میں جہاں سجدے
وہی زمیں نظر آتی ہے آسماں کی طرح
نظر ملی ہے تو پہچان جائے اہل چمن
دکھائی دیتے ہیں گلچیں بھی باغباں کی طرح
کتاب زیست کا شیرازہ بند کوئی نہیں
بکھر گئی ہے کسی نظم بوستاں کی طرح
نہ برگ و بار نہ شادابیاں نہ غنچہ و گل
یہی بہار اگر ہے تو ہے خزاں کی طرح
تمہارے شہر میں مدت سے یہ تمنا ہے
دکھائی دے کوئی بے مہر مہرباں کی طرح
خدا گواہ کہ اک عمر کا اثاثہ ہے
نہ کیوں عزیز رکھوں علم و فن کو جاں کی طرح
کسے بتائیں کہ تھے ہم بھی ہم نشیں اے سیفؔ
وہ تاجؔ بھول گئے یاد رفتگاں کی طرح