مانا کہ لب زخم دہائی نہیں دیتا

مانا کہ لب زخم دہائی نہیں دیتا
محرم بھی تو وہ دست حنائی ہیں دیتا


یہ جشن ہے کیسے کہ مبارک نہ سلامت
آپس میں کوئی شخص بدھائی نہیں دیتا


کہتے نہیں صرف اس کو فقط رنج و تعب ہے
کچھ لطف یہ بے آبلہ پائی نہیں دیتا


نقاد کہ فنکار کا محتاط رویہ
گنجائش‌ انگشت نمائی نہیں دیتا


آ جاؤ کہ اب بھیگ چلیں رات کہ پلکیں
وہ شخص تو آتا بھی دکھائی نہیں دیتا


امکان کی حد میری ہو کر لیتا ہوں اصلاح
میں اپنی خطاؤں کہ صفائی نہیں دیتا


لفظوں میں رگ آثار کا خون آ تو گیا ہے
لیکن یہ ابھی صاف دکھائی نہیں دیتا


اے تاجؔ رفاقت نہ سہی دکھ ہے تو یہ ہے
انصاف بھی اک بھائی کو بھائی نہیں دیتا