نظر میں مدتوں عبرت کا منظر بیٹھ جاتا ہے

نظر میں مدتوں عبرت کا منظر بیٹھ جاتا ہے
صف فقرا میں جب کوئی تونگر بیٹھ جاتا ہے


تضاد باہمی ہو بھائیوں میں اک تباہی ہے
ہوں دیواریں اگر کچی تو پھر گھر بیٹھ جاتا ہے


پرائے ہو گئے بیٹے نہ پوچھیں لاغری میں اب
پریشاں باپ بوڑھا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے


ضمیر و آبرو خودداریاں سب بیچی جاتی ہیں
بکے زن مرد دروازے کے باہر بیٹھ جاتا ہے


شراکت کی کمائی ہے تو کیوں لڑ کر گنواتے ہو
ترازو لے کے منصف بن کے بندر بیٹھ جاتا ہے


کرم ہے لوک شاہی کا سیاست کا کرشمہ ہے
کروڑوں کی کمائی کرکے لیڈر بیٹھ جاتا ہے


تھکن کو بھول کر چلنا ہی انورؔ زندگانی ہے
وہ منزل پا نہیں سکتا جو تھک کر بیٹھ جاتا ہے